سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟
ایک سیاسی جماعت کسے کہتے ہیں؟ کیا سیاسی جماعت صرف پارلیمانی پارٹی کا نام ہے؟ امریکہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور یہ دونوں جماعتیں امریکہ پر حکومت کرتی آئی ہیں۔ موجودہ امریکی صدر جو بائڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ اس پارٹی کی سربراہی کس کے پاس ہے؟ اگر میں غلطی پر نہیں تو اس کے چیئر پرسن کا منصب جیمی ہیریسن کے پاس ہے۔ جیمی ہیریسن سینیٹ کے انتخاب میں شکست کھا گئے تھے۔ اب پارٹی کا سربراہ شکست کھا کر پارلیمان سے باہر ہے لیکن اس کی جماعت امریکہ میں حکومت کر رہی ہے۔ تو اب کیا سمجھا جائے کہ ڈیموکریٹک پارٹی وہی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہے اور اس پارٹی کے سربراہ بھی قبلہ جو بائیڈن صاحب ہیں اور جیمی ہیریسن صاحب غالب صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بس جی کے بہلانے کو خود کو پارٹی کا سربراہ سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کی سربراہی کس کے پاس ہے؟ رونا رومنی کے پاس؟ کیا وہ امریکی پارلیمان کا حصہ ہیں؟ نہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اصل پارٹی تو وہ ہے جو امریکی سینیٹ یا کانگریس میں بیٹھی ہے اور جو باہر بیٹھے ہیں وہ برائے وزن بیت خود کو سیاسی جماعت سمجھنے کی ضد سی لگائے ہوئے ہیں؟
اس طرح کی مثالوں کا ایک پہاڑ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت پارلیمانی جماعت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جدو جہد سیاسی جماعت کی ہوتی ہے۔ آئین سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ پالیسی سیاسی جماعت دیتی ہے۔ الیکشن کمپین سیاسی جماعت مرتب کرتی ہے۔ انتخابی منشور سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ انتخاب میں ٹکٹ کسے دینا ہے اور کسے نہیں دینا یہ فیصلہ بھی اس سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ جسے ٹکٹ ملتا ہے وہ ووٹ اس سیاسی جماعت کے نام پر مانگتا ہے۔ وہ ہار جائے تو کہا جاتا ہے سیاسی جماعت ہار گئی۔ وہ جیت گئے تو کہا جاتا ہے فلاں جماعت جیت گئی۔ جیت جانے کی صورت میں کابینہ میں کسے شامل کرنا ہے اس کا فیصلہ بھی سیاسی جماعت کرتی ہے۔ حکومت اکیلے بنانی ہے یا اتحادیوں سے مل کر، یہ فیصلہ بھی سیاسی جماعت کرتی ہے۔ پھر یہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی جماعت ہو۔
پارلیمنٹیرین کسی بھی جماعت کے ہوں، وہ اس جماعت کے ووٹ اور اس جماعت کے اعتماد کے امین اور نمائندے ہوتے ہیں۔ جماعت ایک مدر انسٹی ٹیوشن، کی طرح ا ن کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے۔ مدر انسٹی ٹیوشن اپنے نمائندوں سے کم اہم کیسے ہو گیا؟
ایسے بھی ہوتا ہے کہ جماعت کے کچھ لوگ جیت جائیں اور کچھ ہار جائیں۔ جیتنے و الے کیا یہ دعوی کرنا شروع کر دیں کہ اصل جماعت تو اب ہم ہی ہیں۔ کیا جو بائیڈن جیمی ہیرسن سے کہہ سکتے ہیں کہ میں جیت گیا آپ ہار گئے۔ اس لیے اصل ڈیموکریٹک پارٹی آج سے میں ہوں۔ آپ اب کوئی اور سرگرمی تلاش کر لیں۔
سیاسی جماعت نے ہمہ جہت اور طویل جدو جہد کرنا ہوتی ہے۔ اقتدار کے ایوان میں اس کے ٹکٹ پر جو نمائندے جاتے ہیں ان کی مدت اقتدار چند سال ہوتی ہے۔ تو کیا چند سالوں کے مینڈیٹ والوں کو اصل سیاسی جماعت کہا جائے اور جس جماعت نے آگے کئی عشروں تک سیاسی جدو جہد کرنی ہے اسے ثانوی حیثیت دی جائے؟
سیاسی جماعت کا رہنما یا سربراہ کسی وجہ سے الیکشن جیت کر پارلیمان میں نہیں پہنچ سکتا۔ ق لیگ کے چودھری شجاعت حسین کی طرح الیکشن میں حصہ نہیں لیتا یا یا ڈیموکریٹک پارٹی کے جیمی ہیرسن کی طرح ہار جاتا ہے تو کیا اس کا اختیار ختم سمجھا جائے اور اصل پارٹی وہ ہو گی جو ایوان میں بیٹھی ہے؟
سیاسی جماعت کا تعلق پورے سماج سے ہوتا ہے۔ وہ ہر شعبے میں کام کر رہی ہوتی ہے۔ پارلیمانی جماعت کا تعلق صرف پارلیمان سے ہوتا ہے اور وہ اس جماعت کے دیے مینڈیٹ کے تحت ایک خاص مدت کے لیے اقتدار میں آتی ہے یا حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہے۔ اصل اہمیت اب کُل کی ہوگی یا جزو کی؟ جزو کو کُل پر کیسے فوقیت دی جا سکتی ہے؟ پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکی ہے۔ اب اگر پارلیمانی جماعت ہی اصل میں سیاسی جماعت ہوتی ہے تو تحریک انصاف کو کیا آج سے سیاسی جماعت نہ سمجھا جائے؟ یا صرف ہمارے بھائی جان جناب راجہ ریاض صاحب ہی اصلی اور حقیقی تحریک انصاف قرار پائیں گے؟ تحریک انصاف کا موقف وہ ہوگا جو عمران خاں بیان کریں گے یا وہ ہو گا جو راجہ صاحب بیان کریں گے۔
برصغیر کے معاشرے کے بہت سارے مسائل ہیں۔ یہاں طاقت اور اقتدار ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے یہاں سیاسی مناصب سے زیادہ پارلیمان کے اراکین کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس اقتدار ہوتا ہے۔ حقیقت مگر اس کے برعکس ہے۔ سیاسی جماعت پارلیمان میں بیٹھے اپنے نمائندوں کا نام بھی ہوتا ہے لیکن یہ صرف ان اراکین پارلیمان پر مشتمل نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعت ان کارکنان پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنے رومان کے لیے عمریں کھپا دیتے ہیں۔ سیاسی جماعت کا ایک اپنا تنظیمی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے ہر وارڈ یونین کونسل تحصیل ضلع صوبے میں عہدیدار ہوتے ہیں۔ جو بغیر معاوضے کے اپنے نظریے کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا انہیں صرف اس لیے اصل سیاسی جماعت نہ سمجھا جائے کہ وہ ایوان تک نہیں پہنچ پاتے؟
ہمارے سماجی اور فکری تضادات بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔ سید مودودی نے کہا تھا: غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اس کے ہاں اولاد نرینہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی المیہ ہمارے سماج پر بیت گیا ہے، ہم غلطی ہائے مضامین بن چکے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور ہمارے سیاسی جھگڑے ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ تعبیر کی غلطیوں نے ہر معاملہ گھمبیر بنا دیا ہے۔ کوئی فرد ایسا نہیں رہا جو اس وقت ثالث کا کردار ادا کر سکے اور اس کی شخصی وجاہت سب کو بٹھا کر معاملہ کر سکے۔ بڑے لوگ اس سماج سے اٹھ گئے اور ان کے اٹھ جانے کے باوجود جو چھوٹے تھے وہ چھوٹے ہی رہے، بڑے نہ ہو سکے۔ جس معاشرے میں ایک بھی ایسا شخص نہ ہو جو کسی تنائو کے ماحول کو سب کو آواز دے اور سب اس کے احترام میں چلے آئیں کہ یہ جو بھی فیصلہ کرے گا منظور ہے، اس معاشرے کو کیا کسی مزید المیے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے؟ کوئی حادثہ سا حادثہ ہے جو ہم پر بیت گیا۔
المیہ تو یہ ہے کہ کوئی ادارہ بھی ایسا باقی نہیں رہا جو یہ کردار ادا کر سکے۔ ہر ادارہ تنقید کی زد میں ہے اور ہر ایک کی کمر اس کے نامہ اعمال کے بوجھ سے دہری ہوئی پڑی ہے۔ کسی کے لیے بھی یہ دعوی کرنا ممکن ہے کہ اس کا دامن غلطیوں سے پاک ہے اور وہ سرخرو ہے۔
میرے جیسا ایک بے بس شہری سوچتا ہے کہ یہ ہم کن راہوں کو چل نکلے ہیں اور ہمارا بنے گا کیا؟ اب تو جی کرتا ہے چیخ چیخ کر آواز دی جائے کہ پاکستان خدا کا انعام ہے اسکی ناقدری نہ کریں۔ رک جائیں۔ تھم جائیں۔ لوٹ آئیں۔ کہ ملک تو آخر اپنا ہے۔