شہنشاہ جہانگیر مارگلہ کا داماد تھا
شہزادہ سلیم اور انارکلی کی کہانی تو آپ سب جانتے ہوں گے لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہی شہزادہ سلیم جب شہنشاہ ہندوستان جہانگیر بنا تو اس کی شادی مارگلہ کی وادی کی ایک معزز خاتون سے ہوئی اور دلہن کو شادی کے تحفے میں مارگلہ کا ایک گائوں دیا گیا۔ ان زمانوں میں اس گائوں کو فتح پور بائولی کہا جاتا تھا، آج کل اس کا نام سید پور ماڈل ولیج ہے؟
امتیاز علی تاج نے انار کلی ڈرامہ لکھا تو علامہ اقبال ؒ نے کہا " انار کلی کی زبان میں روانی اور انداز بیاں میں دلفریبی ہے"۔ منشی پریم چند کا کہنا تھا "مجھے جتنی کشش انار کلی میں ہوئی وہ کسی اور ڈرامے میں نہیں ہوئی " اور پطرس بخاری نے لکھا " انار کلی اردو ڈرامہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا"۔ لیکن خود امتیاز علی تاج اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ: جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں، تاریخی اعتبار سے یہ قصہ بے بنیاد ہے۔ یہ داستان نہ معلوم کب اور کیوں کر ایجاد ہوئی۔ میرے ڈرامے کا تعلق محض روایت سے ہے ـ"۔۔۔۔ فتح پور بائولی کی کہانی البتہ سچ ہے اور آج یہی آپ کو سنانی ہے۔
مارگلہ کا یہ گائوں فتح پور بائولی صدیوں کی تاریخ کا رازدان ہے۔ روایت ہے کہ مرزا فتح علی نے 16 ویں صدی کے شروع میں مارگلہ کے اس گوشے میں چشموں اور ندیوں کے کنارے ڈیرہ لگایا اور یہ مقام انہی سے منسوب ہو کر فتح پور بائولی کہلایا جانے لگا۔ صدیوں پرانے اس گائوں میں بدھ مت، ہندو، یونانی اور مسلم تہذیب کے نقوش بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن جس کہانی کا ہم ذکر کررہے ہیں اس کی شروعات سارنگ خان اور مغل بادشاہ بابر کی اس ملاقات سے ہوتی ہے جو اٹک کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ہوئی تھی۔ سارنگ خان پوٹھوہار کے پہلے حکمران تھے جنہیں سلطان کہا جاتا تھا۔ بابر نے سارنگ خان کو خلعت عطا کی تو سارنگ خان نے کہا اے بادشاہ!کبھی ضرورت پڑی تو میں آپ کے لیے جان قربان کر تے کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہو ں گا۔
سلطان سارنگ نے، بعد میں بادشاہ بننے کے بعد اس قول کو نبھایا اورہمایوں کی خاطر شیر شاہ سوری سے ٹکرا گئے۔ روایت ہے کہ ان کی زندہ کھال کھینچ لی گئی۔ ان کی قبر روات کے قلعے میں ہے۔ سلطان سارنگ کے بعد معاملات ان کے بیٹے سلطان سید خان کے پاس آگئے۔ ادھر مغل سلطنت اپنے تیسرے بادشاہ اکبرکے ہاتھ میں چلی گئی۔ اکبر نے اپنے باپ ہمایوں کے ساتھ کی گئی وفاداری کو یاد رکھا اور سلطان سارنگ خان کے بیٹے کو شیر شاہ سوری کے خلاف مزاحمت کے صلے میں جہاں اور بہت کچھ عطا کیا وہیں مارگلہ کا یہ گائوں فتح پور بائولی بھی سید خان اور ان کے اہل خانہ کو تحفے میں دے دیا۔ یہ گائوں پھر انہی سے منسوب ہو گیا اور فتح پور بائولی کی بجائے سید پور کہلانے لگا۔
شہنشاہ جہانگیرکو پہاڑ کے دامن میں ندیوں، باغات اور چشموں سے بھرا یہ گائوں بہت پسند تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے کابل جاتے ہوئے اسی گائوں میں قیام کیا اور تزک جہانگیری میں پنڈی کے قریب " شہنشاہ نے اپنی جس رہائش کا ذکر کیا ہے کہا جاتا ہے کہ وہ مارگلہ کا یہی گائوں سید پور تھا۔ جہانگیر نے لکھا کہ پنڈی سے تھوڑا آگے ایک ایسا جاں فزا مقام ہے کہ جو اسے دیکھتا ہے اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ مغل بادشاہ نے کتنی سچی بات کہی تھی۔ ساڑھے پانچ سو سال بعد اب بھی مارگلہ اتنا ہی جانفزا مقام ہے کہ اس گلشن کو جو دیکھتا ہے اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بالکل میری طرح۔
سلطان سارنگ کے خاندان کاپہلے مغل بادشاہ کے ساتھ قائم ہونے والا وفاداری کا یہ بے مثال تعلق چوتھے مغل بادشاہ کے دور میں رشتہ داری میں بدل گیا جب شہنشاہ جہانگیر نے سلطان سارنگ کی پوتی اور سلطان سید خان کی بیٹی سے شادی کر لی۔ رواج تھا کہ دلہن کو میکے کی جانب سے ایسے موقع پر تحفہ دیا جاتا تھا۔ سلطان سید خان نے اپنی بیٹی کو اس موقع پر غیر معمولی تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ جو گائوں اکبر بادشاہ نے سید خان کو ان کے باپ سلطان سارنگ خان کی بے مثال وفاداری کے انعام میں تحفہ دیا تھا، انہوں نے یہی گائوں اکبر بادشاہ کی بہو کو تحفے کے طور پر پیش کر دیا۔ چونکہ خود دولہا میاں مارگلہ کے اس گائوں کے حسن کے مداح تھے تو یوں گویا تحفے کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
صدیاں بیت گئیں، مغلوں کے اقتدار کو زوال آ گیا اور پانچ سو سال بعد مارگلہ کی دہلیز پر ایک نیا شہر آباد ہوا تو عجیب سی وحشت نے شہر میں ڈیرے ڈال لیے۔ ایسا اہتمام کیا گیا کہ صدیوں کی تہذیب کے سارے نقوش مٹ جائیں یا محو ہو جائیں۔ مقامی تہذیب کے حوالے ساتھ لینے کی بجائے ای، جی اور ایف کے لا یعنی ناموں سے سیکٹرز آباد کیے گئے گویا یہاں انسانوں نے نہیں رہنا کسی کریانہ سٹور کا حساب کتاب رکھا جانا ہے۔ چنانچہ آج ہمیں امتیازعلی تاج کے ڈرامے کی جھوٹی داستان تو یاد ہے کہ ایک شہزادہ سلیم ہوتا تھا اور ایک انار کلی ہوتی تھی لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہی شہزادہ سلیم جب شہنشاہ جہانگیر بنا تو مارگلہ کی یہ وادی اس کے دل میں خیمے ڈال کر بیٹھ گئی۔
آج ہم سید پور کی بستی عبور کر کے، ندیوں اور چشموں کے تعاقب میں دور پہاڑوں میں گم ہو جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہم شہنشاہ ہندوستان کے سسرال میں آئے ہیں۔ مارگلہ کے پہلو میں شہر اقتدار قائم ہوا تو مقامی تہذیب کو حرف غلط بنا کر مٹا دیا گیا۔ ڈھوک جیون، ای سیون ہو گیا، بانیاں، ایف سکس کہلانے لگا، بیچو، ایف سکس تھری بن گیا، کٹاریاں، جی فائیو بن گیا، بھیکا سیداں، ایف ٹین قرار پایا اور روپراں، جناح سپر ہو گئی۔ یہ پرانے نقوش اگر یوں بے رحمی سے نہ مٹائے جاتے تو شاید آج سی ڈی اے نے کہیں لکھ کر لگایا ہوتا کہ یہ مارگلہ ہے جسے شہنشاہ جہانگیر نے حسن جاں فزا قرار دیا تھا اور یہ شہنشاہ جہانگیر ہے جو اسلام آباد کا داماد تھا۔