Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Rector International Islamic University Jawab Dein

Rector International Islamic University Jawab Dein

ریکٹر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی جواب دیں

ڈاکٹر معصوم یاسین زئی صاحب انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکڑ ہیں۔ صاحب علم ہیں۔ ان کا احترام بھی ہے اور حسن ظن بھی۔ یونیورسٹی کی اپنی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مندرجات کے بعد ان کے اس منصب پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں۔

ان کے سارے احترام کے باوجود، دل پر بھاری پتھر رکھ کر، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ خود یہ استعفی نہیں دیتے تو صدر پاکستان کو انہیں برطرف کر کے کوئی نیا ریکٹر تعینات کر دینا چاہیے۔ اس یونیورسٹی کو تباہی سے بچانا ہے تو یہ قدم اب ناگزیر ہو چکاہے۔

گذشتہ سال انہی سردیوں میں، یونیورسٹی میں ایک طالب علم قتل ہوا۔ یہ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اس نوعیت کا پہلا حادثہ تھا۔ یونیورسٹی نے اس موقع پر ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اسے کہا کہ اس واقعے کی وجوہات اور مختلف پہلوئوں کا تجزیہ کرے اور ایک مفصل رپورٹ پیش کرے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر کمیٹی صاحب الرائے اور اہم افراد پر مشتمل تھی تا کہ اس کی رپورٹ آئے تو کسی کے لیے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائرکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق اس کمیٹی کے چیئر مین تھے۔

ممبران میں سوشل سائنسز فیکلٹی کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ ملک، شریعہ اکیڈمی کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مشتاق، شعبہ قانون کے چیئر مین ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن، ایڈیشنل ڈائرکٹر سید آصف کمال اور انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید جیسے لوگ شامل تھے۔

کمیٹی نے روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کی۔ 29 اجلاس کیے اور 60 لوگوں کے انٹرویو کر کے جب ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تو اسے چھپا لیا گیا۔ حادثے کے بعد جناب ریکٹر پر انگلیاں اٹھیں تو میرے حسن ظن نے اسے قابل توجہ نہیں سمجھا۔ لیکن ا س" خفیہ" رپورٹ کے مندرجات دیکھنے کے بعد مزید حسن ظن اب ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ رپورٹ اب واٹس ایپ گروپوں میں اور ای میل پر دھڑا دھڑ شیئر ہو رہی ہے اور اعلان عام فرما رہی ہے کہ پڑھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

جناب ریکٹر کی خدمت میں چند سوالات رکھ رہاہوں۔ امید ہے وہ ان کا جواب دے کر اپنے منصب کی اخلاقی حیثیت اور میرے جیسے خیر خواہوں کے حسن ظن کو پامال ہونے سے بچائیں گے۔

1۔ یونیورسٹی کی اپنی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر کیوں نہیں آنے دیا جا رہا؟ کون خوفزدہ ہے؟ تحقیقاتی کمیٹی میں رپورٹ میں ایسا کیا ہے جس چھپانا ضروری ہے؟ رپورٹ کو گناہ کی طرح چھپا کر رکھنا تھا تو تحقیقاتی کمیٹی قائم ہی کیوں کی گئی تھی؟

2۔ کمیٹی کو دیے گئے مینڈیٹ کی دفعہ چار میں لکھا تھا کہ کمیٹی یونیورسٹی کے کسی بھی شخص کو طلب کر سکتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کمیٹی آپ سے ملاقات کی درخواست کرتی رہی اور آپ کمیٹی کے سوالات کا جواب دینے کو تیار نہ ہوئے؟

کیا آپ کو علم ہے کہ کمیٹی آپ سے کیا پوچھنا چاہتی تھی؟ کیا آپ جانتے ہیں آپ پر کیسے سنگین الزامات تھے؟ کہیں ایسا تو نہیں ان الزامات کا جواب نہ بن پایا ہو اور آپ کمیٹی سے ملاقات کے لیے اسی لیے تیار نہ ہوئے ہوں کہ بات مزید نہ کھل جائے؟ کیا آپ کا یہ اقدام کمیٹی کو دیے گئے میندیٹ کی توہین نہیں تھی؟

کیا صدر جامعہ کے حکم پر قائم کمیٹی کے مینڈیٹ کی یوں توہین غیر قانونی کام نہیں؟ کیا ایسا کام ریکٹر کو زیب دیتا ہے؟

3۔ کیا یہ درست ہے کہ کمیٹی نے لکھا کہ اس نے جس کو بلایا وہ پیش ہوا سوائے ڈاکٹر ظفر اقبال کے؟ کیا ان کو بھی آپ ہی کی شہہ تھی؟ اگر آپ کی شہہ نہیں تھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر یونیورسٹی کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دے؟ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟

4۔ آپ نے تحقیقاتی کمیٹی سے ملاقات نہیں کی لیکن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دیا کہ وہ آپ سے ان امور پر سوالات کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ پر سنگین الزامات عائد ہو رہے تھے۔ کیا آپ کسی بھی فورم پر ان سوالات کا جواب دینے کی زحمت فرمائیں گے؟

5۔ یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ آپ نے یونیورسٹی میں سیاسی اور نسلی منافرت اور علاقائیت پر مبنی تنگ نظری کو فروغ دیا۔ آپ کے ایس پی ایس پر بھی شدید نوعیت کے الزامات ہیں جن کا تعلق فوجداری کے مقدمے سے بھی بنتا ہے، کیا آپ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟

6۔ اس حادثے میں ملوث کچھ طلباء کے بارے میں کمیٹی نے بتایا ہے کہ ان کی فیسیں بھی ادا نہیں ہوئی تھیں اور اس کے باوجود انہیں خصوصی اجازت سے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی رہی اور ریکٹر کے حکم پر انہیں وظائف بھی دیے جاتے رہے۔ کیا آپ اس الزام کی تردید کر سکتے ہیں؟ کمیٹی نے یہ بھی لکھا ہے کہ طلباء کے خلاف ڈسپلنری کمیٹی میں کچھ معاملات تھے وہ بھی کسی کے دبائو پر ختم کیے گئے؟ کیا یہ آپ ہی کا دبائو تھا؟

7۔ کیا یہ درست ہے کہ کمیٹی نے لکھا ہے کہ صرف ایک سمسٹر میں 102 ملین کی فیسیں ابھی یونیورسٹی میں مجموعی طور پر واجب الادا ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ مخصوص طلباء کو میرٹ سے ہٹ کر داخلے دیے گئے؟ وہ کون ہے جس کے دفتر سے سادے کاغذ پر نام لکھ کر شعبوں کے سربراہوں کو بھیجے جاتے ہیں کہ ان طلباء کو داخلے دینے ہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ ایک طالب علم کو (جس کا کمیٹی نے نام بھی لکھ دیا ہے) پانچ بار سیز(یعنی فیل) ہونے کے باوجود امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی رہی؟ یہ اجازت کیسے دی جاتی رہی؟

8۔ کمیٹی نے جو تجاویز دی ہیں اس کا پیرا تین تو انتہائی سنگین اور انتہائی حساس ہے۔ اس کی تفصیل تو میں یہاں نقل نہیں کر سکتا لیکن جناب ریکٹر کو تو معلوم ہو گا الزام انہی کی ذات پر ہے۔ کیا وہ ا س رپورٹ اور اس کے مندرجات کی تردید کریں گے؟

یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے لوگوں نے جو بیانات دیے، ان کی نوعیت تو اس سے بھی سنگین ہے۔ ریکٹر کی حیثیت بچوں کے باپ کی ہوتی ہے۔ ہم نے اس منصب پر ملک معراج خالد جیسی شخصیت کو دیکھ رکھا ہے جو سراپا شفقت تھے۔ یہ منصب اگر سنگین الزامات کی زد میں ہو تو اخلاقی تقاضا ہے آدمی اپنے منصب کے پیچھے نہ چھپے بلکہ سامنے آئے اور دامن صاف ہے تو جواب دے۔

تو کیا میرے جیسے خیر خواہ یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ معصوم یاسین زئی جیسی صاحب علم شخصیت اس اخلاقی وجود کے باب میں حساسیت کا مظاہرہ کر سکے گی؟ اسلامک یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء دنیا کے جس گوشے میں ہوں، یہ جامعہ ان کا گھر ہے اور وہ لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ وہ اسے تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ جواب دیجیے یا استعفی دیجیے۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad