Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Radio Pakistan Tsunami Main Gharq Ho Gaya?

Radio Pakistan Tsunami Main Gharq Ho Gaya?

ریڈیو پاکستان سونامی میں غرق ہو گیا؟

ریڈیو پاکستان کے جوان سال ملازمین کو سراپا احتجاج دیکھا تو دیوار دل سے اداسی آن لپٹی۔ ایک یا دو نہیں سات سو سے زیادہ ملازمین کو پل بھر میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کا دکھ زیادہ ہے۔ ان سینکڑوں لوگوں کے تاریک مستقبل کا یا اس ریڈیو پاکستان کا جو ہماری قدروں اور ثقافت کا استعارہ تھا۔ کیا سب کچھ ہی سونامی غرق ہو جائے گا؟

چند لمحے میں وہاں رکا، پھر ٹریل فائیو پر آ گیا۔ آج کے حالات میں یہ واحد گوشہ ہے جہاں عافیت ہے۔ ندی بہہ رہی تھی۔ مگر ماحول میں اداسی لپٹی تھی۔ موسم باہر کے نہیں، اندر کے ہوتے ہیں۔ جب من اداس ہو تو ٹریل فائیو کا طلسم بھی معنویت کھو دیتا ہے۔ جی کچھ اور اداس ہو گیا۔

وعدہ تھا اتنی نوکریاں دیں گے کہ نوکریوں کا سونامی آ جائے گا عالم یہ ہے کہ لوگوں کے منہ سے نوالے تک چھینے جا رہے ہیں۔ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے جن سینکڑوں ملازمین کو بغیر نوٹس دیے ایک لمحے میں نکال دیا گیا ان کی تنخواہیں ہی کتنی تھیں؟ پچاس ہزار سے اوپر تو کسی کا معاوضہ نہ تھا۔ افسوس، سونامی میں روزگار کا یہ آسرا بھی غرق ہو گیا۔

یہ ایک کمزور عذر ہے کہ ریڈیو کا زمانہ نہیں رہا، ریڈیو کا زمانہ نہ ہوتا تو ایف ایم اتنی ترقی کیوں کرتے؟ ریڈیو کو بھی اسی طرح برباد کیا گیا جیسے دوسرے اداروں کو کیا گیا ورنہ ریڈیو میں آج بھی یہ صلاحیت موجود ہے وہ اپنا آپ منوا سکے اور سماج کی علمی، معاشرتی اور ثقافتی جبلت کی تسکین کر سکے۔

کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جو ان سے چل رہا ہو اور جہاں ان کی کارکردگی مثالی ہو۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کس لیے ہوتی ہے؟ اداروں کو برباد کرنے اور بیچ کھانے کے لیے یا ان میں اصلاح کے لیے؟ ریڈیو کو کیسے چلایا جا رہا ہے؟ یہ ایک اداس کر دینے والی کہانی ہے۔ کئی مہینوں سے اہم ترین ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی سیٹ خالی ہے۔ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں یہ کتنا اہم منصب ہے۔

2. ڈائریکٹر پروگرامز کا منصب پچھلے کئی سالوں سے خالی ہے۔ ایڈیشنل چارج پر کام چلایا جا رہا ہے۔ آج کل جو خاتون اس سیٹ پر کام کر رہی ہیں۔ جو بندہ ایڈیشنل چارج پر کام کرے گا وہ رولز اینڈ ریگولیشنز پر عمل کرنے اور ٹھوس پلان کی بجائے ایڈ ہاک ازم کو لے کر چلتا ہے۔ نتیجتا سارا ادارہ منجمد ہو جاتا ہے۔

3 معاملات مضحکہ خیز انداز سے چلائے جا رہے ہیں۔ روایت ہے کہ ڈائریکٹر پروگرامز اور ڈی جی ریڈیو ایک طرف تو کنٹریکٹ ملازمین کو نکالنے کے درپے ہیں۔ اور دوسری طرف جب ایک سینئر پروڈیوسر نے ایک کنٹریکٹ ملازمہ کے غیر ذمہ درانہ رویے پر کارروائی کی سفارش کی تو اسی پروڈیوسر کو بغیر کسی ثبوت اور قانونی کارروائی کے وارننگ جاری کردی گئی۔

4ریڈیو پاکستان کے ٹرانسمیٹرز اجتماعی طور پر ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار ہیں۔ کوئی شارٹ ویوو کا ایک بھی ٹرانسمیٹر اس وقت کام نہیں کررہا جب کہ دوسری طرف پچھلے دونوں لاکھوں روپے لگا کر ایک پرانے مارکونی ٹرانسمیٹر کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں میت رکھی ہو اور آپ باہر بینڈ باجے بجائے جا رہے ہوں۔ ایسے کام تب اچھے لگتے ہیں جب آپ کا ادارہ بہت اچھا چل رہا۔

5 پچھلے کئی برسوں سے ریڈیو کا مستقل ڈی جی نہیں لگایا جا رہا۔ اداروں کو برباد کرنے کی بجائے انہیں بہتر کرنا مقصود ہو تو کیا ایسے کیا جاتا ہے۔ 5ایک سے پانچ گروپ تک تمام خالی سیٹیں ختم کر دی گئی ہیں۔

6 ڈرامہ اور ڈاکومنٹری پروڈکشن نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

7 میوزک پروڈکشن مکمل بند ہے۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹس لاہور اور کراچی میں بند کر دیے گئے ہیں۔ .8ایک زمانے میں ریڈیو پر کلاسیکل میوزک، گیت، غزل اور قوالیاں ہوتی تھیں۔ وہ سلسلہ مکمل طور پر پر مفقود ہو چکا ہے۔

8عرصہ دراز سے ملازمین کا میڈیکل بند ہے۔

9پانچ بڑے شہروں کے علاوہ سب ملازمین کی ہاؤس ہائرنگ بند کر دی گئی ہے حالانکہ یہ سہولت ملازمین پچھلے 25 برس سے لے رہے تھے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک دیوار گریہ بنتا جا رہا ہے لیکن سننے والا کوئی نہیں۔ پتا نہیں اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی. ہر کوئی سہما بیٹھا ہے۔ ملک آش فشاں لہجوں اور پریس کانفرنسوں سے نہیں چلتے۔ ملک کسی ٹاپ ٹرینڈ بنانے سے بھی نہیں چلتے کہ روز آب بغلیں بجائیں ہماری سوشل میڈیا ٹیم نے آج بھی حکومت کے حق میں ٹاپ ٹرینڈ کھڑا کر دیا. ملک دوسروں کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چلتے۔ ملک چلانے کے لیے تحمل ذمہ داری اور درد دل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ متاع عزیز با نایاب ہو چکی۔ کس بانکپن اور امید سے لوگوں نے تبدیلی آرزو کی تھی. آج ساری بستی سہمی پڑی ہے۔ ریڈیو پاکستان کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کی ثقافتی تاریخ ریڈیو پاکستان کے بغیر ادھوری ہے۔ ایسے اداروں میں اصلاح کی جاتی ہے اور جدت لائی جاتی ہے۔ انہیں تباہ نہیں کیا جاتا۔ کوئی ہے جو سن رہا ہو؟ : ہنستا بستا ملک تھا، اب جدھر دیکھو دیوار گریہ بنی پڑی ہیں۔ کوئی دکھ سا دکھ ہے۔

Check Also

Kya Kahoon Aur Kis Se Kahoon?

By Syed Mehdi Bukhari