پرویز مشرف کیس، حکومت سادہ بہت ہے یا چالاک بہت؟
پرویز مشرف کیس کا فیصلہ آ چکا ہے اور میرے جیسا طالب علم بیٹھا سوچ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کہاں کھڑی ہے؟ اس کے معاملات طفلان ِ خود معاملہ کے ہاتھ آ گئے ہیں یا اس کے گر گ باراں دیدہ کمال چالاکی سے وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں؟حکومت نا اہل بہت ہے یا ہشیار بہت؟ پاکستان کی تاریخ میں اتنی کنفیوزڈ حکومت شاید ہی کبھی آئی ہو جسے خود معلوم نہ ہو اس کی سمت کیا ہے اور اس نے کرنا کیا ہے۔ ہائی ٹریزن ایکٹ 1973ء کے مطابق آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا اختیار صرف وفاقی حکومت کو حاصل ہے۔ گویا وہی اس میں مدعی بن سکتی ہے۔ کوئی فرد، کوئی ادارہ اور حتی کہ کوئی صوبہ بھی کسی کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج نہیں کروا سکتا۔ اس مقدمے میں سو موٹو بھی نہیں لیا جا سکتاکیونکہ وہ ہائی ٹریزن ایکٹ سے متصادم ہو گا۔ اب اگر وفاقی حکومت ہی اس مقدمے کا واحد مدعی ہے تو اس کے پاس کسی بھی مرحلے پر مقدمے کو واپس لینے کا اختیار بھی ہے۔ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ مقدمہ واپس لے کر طاق نسیاں پر رکھ کر بھول جائے اور وہ اس امر کی مجاز بھی ہے کہ از سر نو ایک نیا مقدمہ قائم کرے جس میں شریک جرم تمام حضرات کو بھی شامل کرے۔
اس مقدمے کے مدعی نوازشریف نہیں تھے وفاقی حکومت تھی۔ مدعی مقدمہ ہی جب مقدمہ واپس لینے کی درخواست کرتا تو یہ مقدمہ نہیں چل سکتا تھا۔ نہ اس میں سو موٹو ہو سکتا تھا نہ اسے مفاد عامہ کی ذیل میں دیکھا جا سکتا تھا کیونکہ ہائی ٹریزن ایکٹ نے بڑے واضح طور پر اس مقدے کا مدعی صرف وفاقی حکومت کو بنایا ہے۔ وفاقی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی اور جب فیصلے کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب وہ بھاگی کہ نہیں نہیں جناب فیصلہ روکیے، ہم کچھ نئے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ جن نئے لوگوں کو وہ اس میں شامل کرنا چاہتی تھی ان کے بارے میں کابینہ سے کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا حالانکہ وفاقی حکومت کا مطلب اب صرف وزیر اعظم نہیں رہا۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے اور حکومت کا فیصلہ صرف اسے کہا جائے گا جس کی کابینہ نے منظوری دی ہے۔ آپ اس معاملے میں حکومت کی غیر سنجیدگی دیکھیے کہ آخری روز جب اس کی جانب سے شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کی درخواست کی تو یہ درخواست وفاقی کابینہ سے منظوری لیے بغیر ہی دائر کر دی۔ تو کیا حکومت کے عالی دماغوں کو معلوم نہ تھا کہ وفاقی کابینہ سے منظوری لیے بغیر ایسی کوئی درخواست اس مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں کی جا سکتی؟
حکومت کو اعتراض تھا تو مقدمہ واپس لے لیتی۔ کم از کم اس بابت کوئی درخواست تو دی ہوتی۔ لیکن اس نے اس نکتے پر کابینہ کا ایک اجلاس تک منعقد نہیں کیا کہ نواز شریف دور میں قائم کردہ اس مقدمے میں کچھ کمی بیشی رہ گئی تھی اس لیے ہم اسے دور کریں گے یا مقدمہ واپس لیں گے۔ ڈیڑھ سال مکمل خاموشی رہی اور آخری روز ایک ایسی درخواست دائر کر کے کارروائی ڈالی گئی جو قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ کابینہ کی منظوری حاصل کیے بغیر استغاثہ ایسی کوئی درخواست دائر ہی نہیں کر سکتا۔
وزرائے کرام باجماعت اقوال زریں سنا سنا کر اپنے تئیں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا وہ اس فیصلے پر بہت پریشان ہیں۔ ان اقوال زریں کا تعلق قانونی پیچیدگیوں سے ہے۔ مثلا وقت گزر جانے کے بعد کیا 342 کے بیان پر اصرار کیا جا سکتا ہے اور بار بار طلب کرنے کے باوجود کوئی شخص پیش نہ ہو رہا ہو تو کیا اس کے خلاف مقدمہ یونہی پڑا رہے گا یا عدالت اس کی غیر حاضری میں فیصلہ سنائے گی۔ چھ سال یہ مقدمہ چلا۔ اب آخری دن جب فیصلہ ہونا ہو حکومت ایک کمزور استدلال کے ساتھ سامنے آ جائے اور ڈھنگ کی درخواست بھی دائر نہ کر سکے تو اس صورت میں عدالت کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ سارے معاملات اپیل میں زیر بحث آ جائیں گے کیونکہ عدالتی فیصلے پر کوئی فریق مطمئن نہ ہو تو دادرسی کا موزوں ترین طریقہ یہی ہوتا ہے کہ قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپیل کی جائے۔ آرٹیکل چھ میں ہونے والی ترمیم اور اس ترمیم کا 1956ء سے اطلاق بھی اہم معاملہ ہے جو بہت سارے ججوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے لیکن ان سب معاملات کا تعلق اب اپیل سے ہے اور یہ قانونی سوالات ہیں جنہیں عدالت دیکھ لے گی۔ سیاسی سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے؟کیا اس کا کام صرف شور مچانا اور الجھنیں پیدا کرکے کارروائی ڈالناہے؟دل چسپ بات یہ ہے حکومت نے یہی رویہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے مقدمے میں بھی اختیار کیا۔ پہلے تو ڈھنگ کا ایک نوٹیفیکیشن جاری نہ کیا جا سکا۔ جس طرح یہ نوٹیفیکیشن جاری ہوا وہ حکومت کی اہلیت پر بہت بڑا سوال ہے۔ اور جب معاملات سپریم کورٹ تک پہنچ گئے تو حکومتی ٹیم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ عدالت کے حق سماعت پر ہی سوال اٹھا دیتی۔ ادھر ادھر کی باتیں کر کے کارروائی ڈالی جاتی رہی اور یہاں تک کہہ دیا کہ ریٹائرڈ جرنیل بھی آرمی چیف بن سکتا ہے۔ ہر وہ کام کیا جس سے بات مزید الجھے لیکن کرنے کا کام نہیں کیا۔ چنانچہ آپ فیصلہ پڑھ لیجیے اور خود دیکھ لیجیے کہ اس کے پیراگراف نمبر 8 میں عدالت نے کیا لکھا؟
عدالت نے لکھا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے عدالت کے حق سماعت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ یہاں عدالت نے jurisdiction کا لفظ استعمال نہیں بلکہ Assumption of jurisdiction کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے Assumption of jurisdiction پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ حکومت کے وزراء پر تو باہر بڑے دلگرفتہ پائے گئے کہ یہ کیا ہو گیا اور کیوں ہو گیا اور کیسے ہو گیا۔ وفاقی وزراء نے اس پر بڑے دلگیر قسم کے ٹویٹ کیے کہ عدالت کو یہ ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔ لیکن عدالت میں نہ صرف حق سماعت پر اعتراض نہیں کیا گیا بلکہ فیصلے کے پیراگراف 8 میں عدالت نے لکھا کہ الٹا اٹارنی جنرل نے عدالت سے التجا کی کہ اس اہم معاملے میں اب عدالت ہی وفاق کی کچھ رہنمائی فرمائے۔ خود التجا کر کے رہنمائی لینے کے بعد دہائی دی جانے لگی کہ عدالت نے یہ کیا کرد یا۔ ان حالات میں بہت سارے دیگر سوالات کے ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت سادہ اور معصوم بہت ہے یا چالاک اور ہشیاربہت؟