پی ڈی ایم اقتدار کا ایک سال کیسا رہا؟
عمران خان کی اقتدار سے رخصتی اور پی ڈی ایم کی کوچہ اقتدار میں تشریف آوری کو ایک سال ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان آنیوں جانیوں، میں پاکستان کو کیا ملا؟ ہیجان، انتشار، بحران اور سیاسی و معاشی عدم استحکام؟ یا کچھ ا ور بھی؟
عمران خان اور پی ڈی ایم نے معاشرے کو پانی پت کامیدان جنگ بنا رکھا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی خامیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔ کسی کے پاس اپنے نامہ اعمال میں سے کچھ نہیں جو لوگوں کے سامنے رکھ سکے۔ صبح شام دشنام اور کردار کشی کا بازار گرم ہو جاتاہے اور اس چاند ماری کو سیاست کہا جاتا ہے۔ دونوں مل کر ہمیں صر ف یہ بتاتے ہیں کہ ان کے حریف میں کون کون سی خامی موجودہے۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اس کے اپنے دامن میں کون سی خوبی ہے۔ ہر گروہ کے رہنما یکسانیت اور سطحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے خیالات اور بیانات میں نہ کوئی تنوع ہے نہ حکمت۔ فکری اور اخلاقی بحران ہے جس نے سب کچھ لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ایک سال معمولی مدت نہیں ہوتی۔ اہل اقتدار کے پاس کوئی سمت اور صلاحیت ہو تو کم ا ز کم بہتری کے نقوش واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ درجن بھر سے زیادہ جماعتیں اقتدار میں ہیں لیکن ایسا کوئی نقش واضح نہیں ہو سکا۔ ملک آج بھی ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حکومتی مناصب کو ذمہ داری کی بجائے مال غنیمت کی طرح بانٹ لیا گیا ہے اور یہ کسی بھی اتحادی حکومت کا سب سے بڑاالمیہ ہوتا ہے کہ اسے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔
دوسری طرف عمران خان ہیں۔ انہوں نے ہیجان، نفرت اور احتجاج کو ایک حکمت عملی بنا لیا ہے۔ انہیں معلوم ہے وہ نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہیں اور عمر کے اس حصے میں جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کارکن کی عقل کی بجائے اس کے جذبات کو مخاطب کیا ہے اور اس میں آگ لگا دی ہے۔ ہٹلر نے کہا تھا کہ نفرت سب سے پائیدار اورمفید جذبہ ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ عمران خان نے درست کہا تھا کہ وہ مائنڈ گیم کے ماہر ہیں۔ ان کی اس صلاحیت نے مگر ملک کی کمر لال اور ہری کر دی ہے۔
ہیجان اور افراتفری بڑھ جائے تو ملک میں کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جو ثالث کا کردار ادا کر سکے۔ افسوس اس وقت کوئی ثالث بھی نہیں۔ نہ کوئی فرد نہ کوئی ادارہ۔
ن لیگ کا سب سے بڑا طرہ امتیاز یہ بتایا جاتا تھا کہ اسے معیشت کی ڈور سلجھانے کا وسیع تجربہ ہے۔ یہ تجربہ کچھ کر نہیں پا رہا۔ کر رہا ہے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ زیادہ توجہ یہ بتانے پر صرف کی جا رہی ہے کہ اس معاشی خرابی کا ذمہ دار عمران ہے۔ اس میں کچھ غلط بھی نہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ان حالات تک پہنچانے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اسد عمر کی اہلیت، کا بھی بنیادی کردار ہے۔ اپنی وزارت کے دنوں میں ان کی خیالی، معاشی پالیسیوں نے جو فالٹ لائنز پیدا کیں انہیں بھرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ لیکن یہ حقائق تو ن لیگ کے سامنے تھے جب اس نے حکومت لی۔ اس وقت دعوی تھا کہ ہم آئیں گے تو چند ہفتوں میں اصلاح کر دیں گے۔ اب ایک سال ہوگیا اصلاح کہیں نظر نہیں آ رہی۔
قانون سازی ہو رہی ہے تو اس سے بھی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ نیب قوانین ایسے لائے گئے کہ ایک ایک شق بتا رہی ہے کہ کس کو فائدہ دینے کے لیے متعارف کرائی گئی۔ ابھی سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ہورہی ہے۔ اس قانون سازی کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی لیکن یہ جس طرح عجلت میں کی گئی ہے اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور پارلیمان میں بحث مباحثے کے بغیر کی گئی ہے اس سے کچھ اچھا تاثر نہیں گیا۔ معلوم یہ ہو رہا ہے کہ ہماری پارلیمان قانون سازی میں صرف اس وقت متحرک ہوتی ہے جب اس کے مفادات خطرے میں ہوں۔ یہی کام ماضی میں توہین عدالت کا قانون بنا کر کیا گیا جسے عدالت نے جو ڈیشل ریویو میں منسوخ کر دیا۔ سنجیدگی کا یہ عالم یہ ہے کہ تعلیم جیسی وزارت رانا تنویر صاحب کے پاس ہے جو تعلیمی ادارے کے کنونشن سے لے کر پارلیمان تک، ہر جگہ یکساں مہارت سے گالی دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔
عمران خان کے دامن میں ایک ہی مہارت ہے۔ وہ ملک کو مسلسل سیاسی ہیجان، انتشار اور عدم استحکام کا شکار رکھنے میں غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ جس روز سے وہ سیاست میں مقبولیت سے بروئے کار آئے ہیں سیاست ٹھہرائو سے محروم ہو چکی ہے۔ ہائپر ریئیلٹی اور پوسٹ ٹروتھ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ پروپیگنڈے کی صلاحیت غیر معمولی ہے، رائی کو پہاڑ بنانے میں انہی غیر معمولی ملکہ ہے۔ کارکن انہیں ایسے ملے ہیں کہ جیسے کسی کو قدرت انعام دے دے۔ کوئی سوال ہی نہیں کرتا۔ بس جو خان صاحب نے کہہ دیا وہ حق ہے اور اس کے سوا سب باطل ہے۔ خان صاحب ایک پہر میں دو یو ٹرن لے لیں تب بھی کارکنان بد مزہ نہیں ہوتے۔
اس وقت کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو یہ دعوی کر سکے کہ وہ سرخرو ہے۔ سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور بہت سنگین غلطیاں ہوئی ہیں۔ اصلاح کی ضرورت بھی سب کو ہے۔ عوام بہت مشکل میں ہیں اور اشرافیہ لایعنی قسم کے آئینی مباحث میں الجھی ہوئی ہے۔ معیشت کی چولیں ہل گئی ہیں اور اسے استوار کرنے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ لیکن ہمارامعاشرہ ہر وقت حالت ہیجان میں ہے۔ گروہی مفادات ریاستی مفادات پر غالب آ چکے ہیں۔
ایک طرف ہماری یہ غیر سنجیدگی ہے اور دوسری جانب مسائل کا پہاڑ کھڑا ہے۔ دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔ معیشت کی حالت یہ ہے یہ خیبر پختونخواہ حکومت نے عید پر تنخواہیں دینے سے معذرت کر لی ہے کہ تنخواہوں کے لیے 45 ارب درکار ہیں جب کہ حکومت کے پاس صرف 13 ارب موجود ہیں۔ بھارت جی 20 کی کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کر رہا ہے۔ یہ اتنا سنگین اقدام ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں اس پر پوری سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
بے بصیرتی کا عالم یہ ہے کہ آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پارلیمان میں جو تقاریر کی گئیں ان کی اس موقع سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ شعوری ارتقاء کا شدید بحران بعض مقررین کے دامن سے لپٹا تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ عام سا سیشن ہے اور اس کی آئین کی گولڈن جوبلی سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس موقع پر تقاریر کا عنوان، متن اور اسلوب کچھ اور ہوناچاہیے تھا۔ لیکن سیاسی تقسیم نے ہمیں وہاں لے جا کر کھڑا کر دیا ہے کہ ہم توازن سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہر وقت غیض و غضب میں بھرے رہتے ہیں۔
یہ صورت حال ایک دلدل جیسی ہے۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ ہرفرد اور ہر ادارہ اس دائرہ کار میں لوٹ جائے جو آئین نے اس کے لیے طے کر رکھا ہے۔