پاکستان پہلے معاشی بحران سے کیسے سرخرو ہو تھا؟
یہ ستمبر 1949 کی بات ہے۔ یعنی قیام پاکستان کو ابھی دو سال ہی ہوئے تھے کہ برطانیہ نے اپنی کرنسی کی کی قدر میں قریب 30 فیصد کمی کر دی۔ برطانیہ کی تقلید میں فوری طور پر ہندوستان نے بھی اپنے روپے کی قدر میں اتنی ہی کمی کر دی۔ لیکن پاکستان نے اپنے روپے کی قدر کم کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارت نے پاکستان کی کرنسی کو تسلیم کرنے اور اس میں تجارت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس بحران کی نوعیت کتنی سنگین تھی اور پاکستان اس معاشی چیلنج سے کیسے نبٹنا، اس میں ہمارے لیے بہت سارے سبق پوشیدہ ہیں۔
اب صورت حال یہ تھی کہ اس نئے بندوبست کے بعد پاکستان کا ایک سو روپیہ بھارت کے 144 روپے کے برابر ہو چکا تھا۔ نہرو نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم پاکستان کے سو روپے کے بدلے میں اسے ایک سو چوالیس روپے ادا کریں، کل تک ہماری کرنسی کی شرح کچھ اور تھی اب پاکستان کے یک طرفہ فیصلے سے ہم بلاووجہ اسے زیادہ پیسے کیوں ادا کریں۔ معاملہ عالمی بنک کے سامنے پیش ہوا۔ اس نے پاکستان کا موقف سنا۔ پاکستان کی معیشت کا حجم دیکھا، پاکستان کے معاشی امکانات کا جائزہ لیا اورفیصلہ سنایا کہ پاکستان کو اپنی کرنسی کی قدر کم نہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس پر دبائو نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ اپنے روپے کی قدر میں کمی کرے۔
بھارت نے ایک بار تو اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ اور پاکستان کو باقاعدہ طور پر تار بھیج کر اطلاع دی کہ اسے پاکستان کی کرنسی کی قدر کے مستحکم رہنے پر کوئی اعتراض نہیں وہ اسے قبول کرتا ہے اور اسی شرح پر اس کے ساتھ تجارت جاری رکھے گا۔ لیکن بعد میں سردار پٹیل وغیرہ کے دبائو پر بھارت اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے پاکستان سے تجارت کرنے سے انکار کر دیا۔ سردارپٹیل کا کہنا تھا کہ ہم الو کے پٹھے نہیں ہیں کہ پاکستان سے ایک سو روپے کی پٹ سن خریدیں اور اور اسے 144 روپے ادا کریں۔
بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی سردار پٹیل ہی کر رہا تھا۔ چنانچہ بھارت حکومت نے اور بھارتی تاجر نے پاکستان سے تجارت کرنے سے انکار کر دیا۔ ملک بنے ابھی دو ہی سال ہوئے تھے۔ پاکستان کے حصے کے 55 کروڑ بھارت دبا کر بیٹھا تھا۔ پنجاب سے قتل عام کے بعد مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آ چکے تھے۔ ایسے میں یہ نئی افتاد پاکستان کے سر پر آن پڑی۔ بھارت کے ساتھ تجارت کی معطلی کوئی عام بات نہیں تھی۔ پاکستان کی بیرونی تجارت کا 60 فیصد بھارت کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اور ہندوستان دنیا بھر کو جو خام مال بیچتا تھا اس کا تیس فیصد پاکستان خریدتا تھا۔
اب ہندوستان نے پاکستان سے پٹ سن خریدنے سے انکار دیا۔ پٹ سن کی پیدوار مشرقی پاکستان میں ہوتی تھی لیکن اس کی ملیں کارخانے بھارت میں تھیں۔ سردار پٹیل نے بیان داغا کہ پاکستان کی پٹ سن نہیں خریدی جائے گی۔ اس کا اب پاکستان والے ناشتہ کر لیں۔ پاکستان کے پاس مشرقی پاکستان میں سب سے بڑی فصل یہی تھی۔ اب اگر وہ کہیں بیچی نہ جاتی تو پاکستان اس کا کیا کرتا۔ کسان بھی پریشان تھا کہ اب کیا بنے گا۔
پاکستان کے پاس نہ کوئی مل تھی نہ فیکٹری جہاں یہ استعمال میں لائی جاتی۔ کوئی بین الاقوامی مارکیٹ بھی فوری طور پر دستیاب نہ تھی۔ کوئی سٹور بھی ایسے نہ تھی کہ اسے سنبھال لیا جاتا اور حالات بہتر ہونے پر بیچ دی جاتی۔ یہ بہت بڑا بحران تھا۔ انہی دنوں سردار پٹیل سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان کی پٹ سن برباہو گی تو آپ کے کارخانے بھی تو متاثر ہوں گے۔ سردار جی نے جواب دیا: پاکستان کب تک اس دبائو کو برداشت کرے گا۔ پورے مشرقی پاکستان کی معیشت تباہ ہونے جا رہی ہے، دو چار ہمارے کارخانے بھی سہی لیکن ہم پاگل نہیں کہ سو روپے کی پٹ سن لے کر 144 روپے ادا کریں۔
یہ وہ دن تھے جب بھارتی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ بہت جلد پاکستان تباہ ہو نے جا رہا ہے اور پھر سے وہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کا پانی بھی فیروز پور ہیڈ ورکس سے روک دیا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے جوگندر نگر سے پاکستان کو دی جانے والی بجلی کی سپلائی بھی بند کر دی۔ یہ ایک پورا مائنڈ سیٹ تھا۔ ماضی میں نیویارک ہیرلڈ ٹریبیون میں گاندھی جی کا بیان شائع ہوچکا تھاکہ: پاکستان نہیں چل سکے گا۔ مسلم لیگ بہت جلد ہندوستان میں شامل ہو نے کی درخواست کرے گی اور میں نہرو سے سفارش کروں گا کہ انہیں واپس لے لیں۔
پاکستان حکومت نے دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ اس نے فوری طور پرایک جیوٹ بورڈ تشکیل دیا۔ اس بورڈ نے پٹ سن کی فروخت کے متبادل طریقوں پر غور کیا۔ اور صرف تین ماہ میں اس نے ایسا بندو بست قائم کر دکھایا کہ پاکستان کو بین الاقوامی منڈیاں ملنے لگیں۔ اب وہ پٹ سن بیچنے کے لیے بھارت کا محتاج نہ تھا۔ دوسری جانب پٹ سن نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے 108 کارخانے بند ہو چکے تھے اور اب بھارتی قیادت پر دبائو بڑھ رہا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور معجزہ ہوا اور وہ یہ کہ اس سال پاکستان کی زرعی اجناس نے ریکارڈ پیداوار دی۔ اتنی کہ بعض مبصرین لکھتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کے ناکام ہونے کے جو منصوبے بنا رکھے تھے اس غیر معمولی زرعی پیدوار نے وہ منصوبے خاک میں ملا دیے۔ پیداوار بھی اچھی ہوئی اوربین الاقوامی مارکیٹ بھی مل گئی۔ پاکستان کو اور کیا چاہیے تھا۔
دنیا کے اٹھارہ ممالک کے ساتھ جب پاکستان کے معاہدے ہو چکے تو بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ہندوستان کے وزیر خزانہ نے لوک سبھا میں کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ چونکہ پاکستان ایک زرعی اجناس پیدا کرنے والا ملک ہے اور چونکہ اس کی پیداوار غیر معمولی ہوئی ہے اور چونکہ اب دنیا کی معاشی صورت حال زرعی اجناس پیدا کرنے والے ممالک کے حق میں ہو چکی ہے اس لیے ہم بھی پاکستان کی کرنسی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی قدر میں اضافے کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ (یعنی ہم اب سو روپے کی پٹ سن 144 روپے میں لیا کریں گے)
اس ساری کہانی سے کیا سبق ملا؟ اول: زراعت ہماری محسن تھی اور ہماری پہلی نجات دہندہ تھی۔ لیکن بعد میں ہم نے اسی کو نظر انداز کر دیا۔ آج ہم گندم تک روس سے منگوا رہے ہیں۔