نئے انتخابات، کھیل بچوں کا ہوا؟
صف بندی ہو چکی ہے اور ہر صف کے جنگجو پر وحشت سوار ہے۔ حزب اختلاف کی خواہش ہے حکومت کی راکھ اڑا دی جائے اور حزب اقتدار کی تمنا ہے اپوزیشن وقت کی دھول بن کر تحلیل ہو جائے۔ مہنگائی اور بد انتظامی کا ستایا ایک عام، بے بس اور مجبور پاکستانی اس صف بندی سے بے زار ایک طرف کھڑا سوچ رہا ہے کہ ہر دو اطراف کے قائدین کرام کو تو اللہ نے غم روزگار سے بے نیاز کر رکھا ہے، وہ آسودہ ہیں اور مراعات کے بہتے دریا کے پاس خیمہ زن۔ لیکن اس جیسے عام لوگ کہاں جائیں جنہیں ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑتا ہے؟
فرض کریں حزب اختلاف کی بات مان لی جاتی ہے اور نئے انتخابات کا اعلان کرا دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے پھر کیا ہو گا؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ انتخابات میں شکست خوردہ فریق دھاندلی کا الزام ہتھیلی پر رکھے ایک بار پھر سڑکوں پر نہیں ہو گا؟ کیا قومی سیاسی قیادت نے ایسی انتخابی اصلاحات کر رکھی ہیں جو آئندہ انتخابات کے شفاف ہونے کی ضمانت دے سکیں یا کیا ان کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہے جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ آئندہ انتخابات گذشتہ انتخابات سے مختلف اور بہتر ہوں گے؟
کل عمران خان دھاندلی کا شور مچاتے رہے، آج حزب اختلاف یہی شور مچا رہی ہے۔ لیکن ہر دو کی اس معاملے میں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نہ عمران خان کے پاس انتخابی اصلاحات کا کوئی ایجنڈہ ہے نہ حزب اختلاف کے پاس۔ آج انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے تو یہ ایک با معنی اصلاحاتی عمل سے گزرے انتخابات کے انعقاد سے کوئی خیر برآمد ہو گا یا یہ مزید تنازعات کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ جس بدترین پولرائزیشن سے ہم گزر رہے ہیں کیا وہ آئندہ انتخابات کے نتائج تسلیم کر لے گی۔ فرض کریں عمران خان جیت جاتے ہیں تو کیا حزب اختلاف ان نتائج کو تسلیم کر لے گی؟ اور اگر عمران خان ہار جاتے ہیں توکیا ڈی چوک ایک بار پھر ہیجان کا مرکز نہیں بن جائے گا؟
الیکشن کمیشن کے چیئر مین کی تعیناتی کا ایک فارمولا ہے جو بالکل ناقص اور ناقابل عمل ہے۔ اس کے نتائج ہم دیکھ چکے۔ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے اس منصب پر تعیناتی ہوتی ہے اور انتظامی صلاحیت اور الیکشن معاملات سے آگہی کو بالکل کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایک قابل احترام بزرگ جج صاحب جتنے بھی صاحب دیانت کیوں نہ ہوں ضروری نہیں بطور چیف الیکشن کمشنر وہ انتخابات کے انتظامی معاملات کو بھی دیکھ سکیں۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو بطور ادارہ کیوں نہیں مضبوط کیا جاتا تاکہ اس کے اندر سے ہی قابلیت کی بنیاد پر لوگ چیف الیکشن کمشنر کے منصب تک پہنچیں؟
ادارہ مضبوط ہو گا تو انتخابی عمل میں شفافیت ہو گی۔ ابھی تو اس ادارے کا حال یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا ڈھانچہ ہی نہیں جو انتخابی عمل کو دیکھ سکے۔ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد اساتذہ کو دو دن کی تربیت دے کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ اب ماہر امور انتخابات ہو چکے ہیں اور انتخابی عمل کو نبٹا سکتے ہیں۔ آر اوز کو عدلیہ سے لیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس اپنے تربیت یافتہ لوگ ہی نہیں ہوتے۔ جج ایک اچھا منصف ہوتا ہے، ضروری نہیں اچھا منتظم بھی ہو۔ الیکشن کے عمل پر سوال اٹھے تو امیدوار کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ آر او کو بھی فریق بنا سکے۔
الیکشن کمیشن طاقتور ہو گا تو نگران حکومت کے قیام کے تکلف سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ دھاندلی تو وہیں ہو جاتی ہے جب نگران حکومت بنتی ہے۔ جب نگران حکومت کا وزیر بعد میں جیتنے والی جماعت کی حکومت میں بھی وزیر بن جاتا ہے تو دھاندلی گویا عین الیقین کے درجے میں پہنچ جاتی ہے۔ بھارت میں بھی الیکشن ہوتا ہے لیکن کوئی نگران حکومت نہیں بنتی۔ ایک طاقتور الیکشن کمیشن خود ہی انتخابات کرواتا ہے۔ یہ تماشا صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ نگران حکومت بنتی ہے اور ایک ریٹائرڈ شخص کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے ساری عمر انتظامی شعبے کو نہیں دیکھا ہوتا۔ وہ ایک دیانت دار اور اچھے فیصلہ ساز ضرور ہو سکتے ہیں، اچھے منتظم نہیں۔
یہی عالم الیکشن ٹربیونلز کا ہے۔ ایک آدمی جیت جاتا ہے، اس کی جیت پر سوال اٹھتا ہے۔ فیصلہ ہونے تک وہ اقتدار کی آدھی اور بسا اوقات پوری مدت گزار چکا ہوتا ہے۔ اصولی طور پر تو یہ فیصلہ دو چار دنوں میں آ جانا چاہیے لیکن یہاں سال لگ جاتے ہیں۔ جب فیصلہ آتا ہے تو اس کی افادیت ہی نہیں معنویت بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ خود تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کو دیکھ لیجیے۔ کب کا یہ کیس پڑا ہے لیکن فیصلہ نہیں آ رہا۔ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف نے بنک اکائونٹ چھپائے اور الیکشن کمیشن کے سامنے جھوٹ بولا لیکن حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔ کچھ خبر نہیں یہ فیصلہ کب آئے گا۔ تحریک انصاف آدھی مدت اقتدار گزار چکی ہے، کل کو فیصلہ اس کے خلاف آجاتا ہے تو اس اقتدار کے دورانیے کا وبال کس پر ہو گا؟
فرض کریں دو لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ ایک طرف بیانیہ ہے دوسری جانب تبدیلی۔ 70 فیصد لوگ سمجھتے ہیں یہ دونوں ووٹ کے قابل نہیں۔ 16 فیصد لوگ تبدیلی کو اور 14 فیصد لوگ بیانیے کو ووٹ دیتے ہیں۔ اب ہو گا کیا؟ 16 فیصد ووٹوں والا سب کا منتخب نمائندہ سمجھا جائے گا۔ کیا یہاں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں کہ کم از کم ٹرن آئوٹ کا ایک معیار بنا دیا جائے؟ یا ایک تیسرا خانہ بنا دیا جائے کہ " میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا"۔ اس صورت میں اگر تیسرے آپشن کے ووٹ جیتنے والے امیدوار کے ووٹ سے زیادہ نکلیں تو الیکشن کالعدم قرار دے دیا جائے اور امیدواران ایک یا دو انتخابات کے لیے نا اہل قرار پائیں۔ اس سے ٹرن آئوٹ بھی بڑھے گا اور جماعتوں پر دبائو بھی آئے گا کہ ٹکٹ اچھی شہرت والے بندے کو دینا ہے۔
الیکشن میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی ہر شکل کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ با معنی اصلاحات بھی ہونی چاہییں اور موجود قوانین پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کوئی ایک امیدوار بھی ایسا ہو گا جو الیکشن اخراجات کی مد میں قوانین کا احترام کرتا ہو گا۔ ایک فرد چار پانچ حلقوں سے الیکشن لڑتا ہے پھر ایک نشست رکھ کر باقی چھوڑ دیتا ہے۔ چھوڑی ہوئی نشستوں پر پھر سے انتخاب ہوتا ہے۔ اس ضمنی انتخاب کا خرچ قومی خزانے سے کیوں ادا کیا جائے۔ جس انوکھے لاڈلے نے یہ سیٹیں خالی کیں کیا یہ خرچہ اس سے نہیں لینا چاہیے؟ کہیں تو کوئی اصلاحات کر لیجیے۔
الیکشن کا عمل مذاق نہیں ہوتا کہ ہر دو تین سال بعد تماشا لگا دیا جائے۔ گذشتہ انتخابات ہماری تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات تھے جن پر قریبا پونے پانچ ارب روپے کا خرچ آیا۔ کیا یہ ظلم نہیں ہر دو تین سال بعد ہماری سیاسی اشرافیہ انتخابات پر مصر ہو اور بغیر کسی با معنی اصلاحات کے۔