ملک ایسے نہیں چلتے بھائی جان
بلیو ایریا سے نکلا تو سامنے گاڑیوں کی ایک طویل قطار تھی۔ یہ اب اسلام آباد کا ہر وقت کا معمول ہے۔ کئی کلومیٹرز تک بمپر ٹو بمپر گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سے کوئی ایک گاڑی بھی پاکستان میں تیار نہیں ہوئی۔ یہ سب گاڑیاں ہم نے قیمتی زر مبادلہ چولہے میں ڈال کر لی ہیں۔ گاڑیاں چلانے کا ہمیں بہت شوق ہے لیکن ملک میں ہم نے کوئی گاڑی تیار نہیں ہونے دینی۔
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 کروڑ36لاکھ ہے۔ ان میں 0 2 ہزار بھی ایسی نہ ہوں گی جو یہاں تیار ہوئی ہوں۔ پہلے ہم پوری دنیا میں گھوم پھر کر امداد اور قرض کے نام پر ڈالر اکٹھے کرتے ہیں اور پھر ہم ان ڈالروں کو امپورٹ کے جہنم میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر گاڑی کے ساتھ پانچ ٹائر ہوتے ہیں۔ ایک سٹپنی، اور چار فعال۔ اگر 2 کروڑ36لاکھ گاڑیاں سڑک پر ہیں تو یہ11 کروڑ 80 لاکھ ٹائر ہیں جو اس وقت سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا یہ ٹائر کہاں سے آتے ہیں؟ بیرون ملک سے۔
پاکستان میں ٹائروں کی صرف ایک کمپنی ہے۔ اجارہ داری امپورٹڈ مال کی ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑی کے اور سستے مہنگے ٹائر کی ایک اوسط نکال لیں تو ایک گاڑی کے ٹائر قریب چالیس ہزار میں آتے ہیں۔ اب یہ حساب کتاب آپ خود کر لیجیے کہ دنیا بھر کے آگے ڈالر کے لیے جھولی پھیلانے والے ہم بادشاہ لوگ کتنے ارب ڈالر صرف گاڑیوں اوران کے ٹائروں کی خاطر بیرون ملک بھجو ا دیتے ہیں۔
دنیا میں اگر کوئی ملک کوئی چیز تیار کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے اس کے لیے کنزیومر مارکیٹ کی تلاش ہوتی ہے۔ ہم آٹو موبیل میں جاپان کی کنزیومرمارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں اور کس قیمت پر؟ یہ خود سپردگی کیوں؟ اس کے بدلے جاپان سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ آج تک کبھی قومی بیانیے میں یہ چیز زیر بحث نہیں آ سکی کہ یہ ناگزیر انتخاب ہے، ہماری نا اہلی ہے، کہیں کچھ فیصلہ ساز کمیشن لے کر خاموش بیٹھے ہیں یا کچھ اور معاملہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ مقامی سطح پر گاڑیاں تیار نہیں ہو رہیں؟
پاکستان نے 1953میں پہلی کار تیار کی تھی۔ یہ نیشنل موٹرز والوں نے بنائی تھی۔ جنرل موٹرز والوں نے اسی دور میں بیڈفورڈ ٹرک بنانے شروع کر دیے تھے۔ علی آٹوز، ہارون انڈسٹریز کتنے ہی نام تھے۔ یہ سب کیا ہوئے؟ کس نے یہ ماحول بنایا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا عذاب ہو گیا۔ بوگرہ حکومت کے وزیر اطلاعات نے کس کے کہنے پر اعلا ن کیا کہ:No More Industrialization۔
سرمایہ کار سے نفرت کرنا ہمارا کلچر کیوں بنا؟ سرمایہ کار کے لیے ون ونڈو آپریشن کی سہولت کیوں نہ دی جا سکی؟ کیسے یہ لوگ ایک کے بعد دوسرے دفتر میں ذلیل ہوتے رہے اور ایک کے بعد دووسرے محکمے کے ہاتھوں ہراساں کیے جاتے رہے؟ کیسے بیوروکریسی نے سرمایہ دار کو یہاں سے بھگایا؟ کیسے یہاں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا؟ سرمایہ اور سرمایہ دار پاکستان سے کیوں بھاگے اور کس نے بھگائے؟ یہ اور ان جیسے سوالات ہمارے ہاں کبھی زیر بحث کیوں نہیں آتے؟
موبائل یہاں ہر بندے کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن کیا کوئی موبائل پاکستان میں بھی تیار ہو رہا ہے؟ یہی حالت لیپ ٹاپ کی ہے۔ یہ سب کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی ایک لیپ ٹاپ پاکستان میں تیار ہو رہا ہو تو بتائیے۔ سب باہر سے آ رہا ہے۔ پاکستان میں اس سیاسی کلچر اور اس رعونت کی ماری کرپٹ بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے کوئی پاگل ہے جو سرمایہ کاری کرے گا؟ یہاں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی ہے۔ حکومت بنتی بعد میں ہے اس کے جانے کی تاریخیں دینے والے پہلے آ جاتے ہیں۔ میڈیا، الا ماشاء اللہ، انتشار فکر اور ہیجا ن کو فروغ دے رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں سرمایہ کاری کیسے ہو گی؟ یہاں خوف ہو وہاں سے سب سے پہلے سرمایہ بھاگتا ہے۔
ملک صرف قرض اور بھیک سے نہیں چلتے۔ ملک اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے پاس ایکسپورٹ بیسڈ اکانومی کا حجم کیا ہے۔ یعنی آپ کے پاس ایسا کیا ہے جو آپ دنیا کو بیچ کر قیمتی زر مبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ ہر چیز امپورٹڈ ہے۔ مقامی صنعت کو برباد کر دیاگیا ہے۔ یہاں تک کہ اب ڈبہ بند دودھ بھی امپورٹڈ ہے۔ سبزی و الے کے پاس چلے جائیں وہ نیوزی لینڈ کے سیب کے فضائل بیان کرے گا اور کوئٹہ کا شاندارسیب لاوارث پڑا ہے۔ کان مہتر میں پانی نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ سیبوں کے باغات کاٹ کر پھینکتے جا رہے ہیں اور کان مہتر اب سیبوں کی وجہ سے کم اور ٹبمر مارکیٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ پہچانا جانے لگا ہے۔
قرض لے لے کر آج یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سواال یہ ہے کہ یہ قرض کہاں گیا۔ 70سال یہ قرض لے کر کھایا جاتا رہا یہ گیا کہاں؟ کیا وجہ ہے کہ اتنا قرض کھا کر بھی ہم ایکسپورٹ بیسڈ اکانومی کی بنیاد نہیں رکھ سکے۔ یہ قرض کون کھا گیا یہ کس کے اللے تللوں کی نذر ہوا؟ غریب کے پاس کھانے کو نہیں اور بالادست طبقے کی مراعات دیکھ دیکھ کر خوف آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ انہیں مال غنیمت میں آیا ہے۔
آپ کے پاس کوئی انڈسٹری کچھ تو ایسا ہو کہ آپ بھی کوئی چیز دنیا کو بیچ رہے ہوں۔ ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم نے کس شعبے میں منصوبہ بندی سے سرمایہ کاری ہے؟ ہم زرعی ملک ہیں لیکن زرعی آلات تک نہیں بنا رہے۔ ہم اس کے لیے دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں۔
دوسرے ملکوں کو ہم کچھ نہیں بیچ سکتے تو کم از کم اپنی ضروریات کی چیزیں تو خود بنانا شروع کر دیں۔ لیکن ہماری نا اہلی اور شاہ مزاجی کا یہ عالم یہ ہے مارکیٹیں امپورٹڈ آئٹم سے بھری پڑی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس عرصے میں خود کیا کیا ہے؟ سیاست کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ ہم ایک آتش فشاں پر بیٹھے ہیں اور ہمارا صرف نچنے نوں دل کردااے۔ معیشت کبھی زیر بحث آبھی جائے تو نکتہ آفرینی کی انتہاء یہ ہوتی ہے کہ کون سا حکمران اپنے کشکول کو بھر لانے میں کامیاب رہا۔ ہم گھر کے برتن بیچ کر گلوبل ولیج میں دہائی دے رہے ہوتے ہیں کہ دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ای بوٹا لائے گا،۔
ابھی ابھی ایک دوست سے معلوم ہوا ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے چاکلیٹ سپر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ تو جناب میں تو چاکلیٹ لینے جا رہا ہوں۔ موجیں ہی موجیں ہیں۔ چاکلیٹ سوئٹزر لینڈ کے، سگار کیوبا کے، گاڑیاں جاپان کی، پانی فرانس کا۔ اقبال ؒ نے کہا تھا:
انتہا اس کی بھی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں، رومال، مفلر پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے، کفن جاپان سے