محمد علی صد پارہ: تم چلے آئو پہاڑوں کی قسم
رات کے پہلے پہر برادرم عظمت اکبر نے بتایا کہ محمد علی صد پارہ نے ڈیتھ زون عبور کر لیا ہے اور اب وہ کے ٹو سمٹ کے بہت قریب پہبنچ گئے ہیں، کسی بھی وقت پاکستان کا پرچم کے ٹو کے برفزار پر لہرا رہا ہو گا۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر جناب سید امجد زیدی تشریف لائے ہوئے تھے اور اس وقت میرے پاس بیٹھے تھے، خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا۔ میں نے شکوہ کیا کہ غیر ملکی کوہ پیما ئوں کے پاس پوری سہولیات ہوتی ہیں لیکن ہماری حکومتوں نے محمد علی صد پارہ سے کبھی نہیں پوچھا کہ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ امجد زیدی کہنے لگے: آصف بھائی تحریک انصاف کی حکومت تو اب آئی ہے، محمد علی صد پارہ کو آج کے ٹو سے واپس آنے دیجیے، ہم اگلے پچھلے قرض اتار دیں گے۔
دیر تک ہم کے ٹو سمٹ کے سر ہو جانے کی خبر کا انتظار کرتے رہے جو کسی بھی لمحے متوقع تھی۔ اطلاعات یہ تھیں کہ محمد علی صد پارہ ڈیتھ زون کے مشکل ترین مرحلے سے نکل گئے ہیں اور انہوں نے " بوٹل نیک" عبور کر لیا ہے۔ سی فور سے کے ٹو کی چوٹی تک کا علاقہ اس مہم کا مشکل ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ سی فور یعنی شولڈر 8 ہزار میٹر کی بلندی پر ہے، اس کے بعد بوٹل نیک آتا ہے جو8211 میٹر کی بلندی پر ہے۔ بوٹل نیک کے بعد صرف 400میٹر کا سفر باقی رہ جاتا ہے۔ آٹھ ہزار میٹر سے آگے کا یہ علاقہ ڈیتھ زون کہلاتا ہے۔
بوٹل نیک ایک تنگ اور 60 ڈگری کی ڈھلوان ہے۔ اسے عبور کرنا بہت بڑی بات سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو جانے والے کوہ پیمائوں کو اب تک جتنے حادثات ہوئے ہیں ان میں سے91 فیصد حادثات اس مقام پر ہوئے ہیں۔ جب یہ خبر ملی کہ محمد علی صد پارہ نے یہ بوٹل نیک عبور کر لیا ہے تو یہ گویا ان کی کامیابی کا اعلان تھا۔ ہم سب سرشاری کے عالم میں بیٹھے تھے اور بریگیڈئر آصف ہارون صاحب نے امجد زیدی صاحب کو مبارک بھی دے ڈالی۔ بس اب ایک رسمی اعلان باقی تھا کہ محمد علی صد پارہ نے کے ٹو سر کر لی۔ ہم اس تصویر کے منتظر تھے کہ کے ٹو سمٹ پر کھڑا مسکراتا محمد علی صد پارہ سبز ہلالی پرچم تھامے ہو اور پھر اس پر چم کو کے ٹو کے بر زار میں لہرا کر امر ہو جائے۔
یہ انتظار ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ محمد علی صد پارہ اب لا پتہ ہیں۔ کوئی خبر نہیں کہ بر ف زاروں کا یہ بیٹا کس حال میں ہے۔ انتظار میں اب دعائیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ بعض کوہ پیما حضرات کا خیال ہے کہ بوٹل نیک عبور کر کے، امکان ہے کہ محمد علی صد پارہ نے کے ٹو سر کر لی ہو گی اور شاید واپسی پر بوٹل نیک کے ڈیتھ زون میں ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو۔
کل تک یہ عالم تھا کہ اس شخص کو ملک میں کوئی جانتا تک نہیں تھا اور آج یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا حرف دعا بن چکا ہے۔ سبز ہلالی پرچم کی نسبت ہی ایسی ہے کہ جہاں یہ لہرانے لگتا ہ دل ہے کہ کھچا سا چلا جاتا ہے۔ محمد علی صد پارہ کو بھی اسی پرچم سے نسبت ہے۔ وہ جس چوٹی پر پہنچتے ہیں سبز ہلالی پرچم ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
برائلر کھا کر جوان ہونے اور موبائل سکرینوں پر ویڈیو گیمز کھیل کھیل کر ایران توران فتح کرنے والی مبینہ انسانی نسل کے کچھ علمبردار اس موقع پر محمد علی صد پارہ کے لیے دعا کرنے کی بجائے نمک پاشی کر رہے ہیں کہ اس فضول کام میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ محمد علی صد پارہ ایک غریب انسان ہیں جو بین الاقوامی کوہ پیمائوں کے ساتھ پورٹر کا کام کر کے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
ان کی مالی حالت کا اندازہ عظمت اکبر صاحب کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک وقت تھا ان سے ان کے دو بڑے خواب پوچھے گئے تو ان کا پہلا خواب اپنی بیوی کے لیے سلائی مشین خریدنا تھا۔ ہر اعتبار سے نظر انداز کیے جانے والے گلگت بلتستان کے علاقے کو آج تک کون سی سہولت دی گئی ہے کہ اس پسماندہ علاقے کے غریب پورٹر پر برائلر بنی نوع انسان تنقید کی چونچیں مارنے لگ جائے؟
اس مہم میں بھی، محمد علی صد پارہ، بطور لیڈر یا حتیٰ کہ بطور رکن بھی شامل نہیں ہیں۔ وہ ایک غیر ملکی ٹیم کے پورٹر کے طور پر اس مہم کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے لیے روزگار کی تلاش میں نکلے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کا روز گار ہی ان کا شوق بھی ہے۔ ان کا دوسرا خواب یہ تھا کہ موسم سرما میں کے ٹو سر کریں۔ اس مہم کی کامیابی کی صورت میں محمد علی صد پارہ نے نہیں، سبز ہلالی پرچم نے سر بلند ہونا تھا اور دنیا بھر میں یہ خبر جانی تھی کہ پاکستان کے ایک کوہ پیما نے جاڑے کی رت میں، منفی پچاس درجہ حرارت میں، دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی طوفانی ہوائوں میں کے ٹو سر کر لیا۔ ایک پورٹر، جسے حکومت نے دو روپے نہیں دیے، کوئی سرپرستی نہیں کی، اپنے تلاش رزق میں، اپنے وسائل اور اپنی ہمت کے بل بوتے پر پاکستان کا پرچم تھامے کے ٹو کے برف زاروں میں کہیں زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے یا کہاں ہے کچھ معلوم نہیں۔ اس کے لئے حرف دعا بلند کرنے کی توفیق آپ سے چھن چکی ہے تو منہ کو آتش فشاں کا دہانہ تو مت بنائیے۔
جو حکومت اور قومی خزانے سے ایک پائی لیے بغیر پاکستان کا نام بلند کرنے نکلا وہ ہیرو نہیں تو پھر کون ہیرو ہے؟ کیا ہیرو ہونے کے لیے لازم ہے کہ ایک ایک میچ کے لاکھوں بٹور کر قوم کی عزت کسی جواری کے ہاتھ بیچ آئے؟ کیا ہیرو ہونے کے لیے ضروری ہے بندے کو کرکٹ آتی ہو؟ کنویں کے مینڈک کا خیال تھا دنیا اس کے کنویں سے بڑی نہیں ہو سکتی۔ بعض لوگوں کی دنیا کرکٹ گرائونڈ میں سمٹ چکی ہے۔ جہاں کوئی جگہ نظر آتی ہے شور مچ جاتا ہے: سٹیڈیم بنائیے، سٹیڈیم، سٹیڈیم۔ توکیا خیال ہے کے ٹوکو برابر کر کے وہاں بھی ایک سٹیڈیم بنا دیا جائے؟ نصیبو لال گانا گائے گی تو شائقین کی اچھل کود سے بوٹل نیک کی ساری برف پگھل جائے گی۔ ناقدین کو کیا خبر پہاڑوں کی دنیا ایک الگ دنیا ہے۔ احمد رضوان نے کہا تھا:
مجھے یہ کیا پڑی ہے کون میرا ہم سفر ہو گا
ہوا کے ساتھ گاتا ہوں ندی کے ساتھ چلتا
ہوں شنیلا بلگم والا نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے۔ برف زاروں کے کسی کیمپ میں کوہ پیما آگ تاپ رہے ہیں اور محمد علی صد پارہ رقص کرتے ہوئے گنگنا رہے ہیں:
ہم کو گھائل کر گیا تیرا ستم
تم چلے آئو پہاڑوں کی قسم
کراچی کے ساحلوں سے بلتستان کے برفزاروں تک، ساری قوم اللہ کے حضور دعاگو ہے ور محمد علی صد پارہ سے کہہ رہی ہے: تم چلے آئو پہاڑوں کی قسم۔