Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Motorway Saneha, Chand Guzarshat

Motorway Saneha, Chand Guzarshat

موٹر وے سانحہ: چند گزارشات

موٹر وے پر سانحے کی صورت جو قیامت اتری اس کو تین زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے: انتظامی، قانونی اور سماجی۔ آئیے ان تینوں کا مختصر ترین جائزہ لیتے ہیں۔

حادثہ موٹر وے کے ساتھ لنک روڈ پر ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ٹال پلازے سے باہر کا حصہ جو بسا اوقات کئی کلومیٹر پر مشتمل ہوتا ہے کس کی عملداری میں ہے؟ اسلام آباد ہی کو دیکھ لیجیے ٹال پلازے سے پشاور موڑ تک قریبا آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے، لاہور موٹر وے سے گوجرانولہ کا لنک روڈ تو اذیت کی حد تک طویل ہے۔ یہاں کبھی عام پولیس پٹرولنگ کرتے نظر آئی ہے نہ موٹر وے پولیس۔ تو کیا موٹر وے کے ہر لنک روڈ کو علاقہ غیر سمجھا جائے اور رات کے وقت سفر نہ کیا جائے؟

موٹر وے پرٹیکس آئے روز بڑھا دیے جاتے ہیں۔ پوری بے رحمی اور بے نیازی کے ساتھ۔ سوال یہ ہے کہ اتنے ٹیکسز دے کر مسافروں کو کیا سہولیات ملتی ہیں۔ گاڑی خراب ہو جائے تو ریسکیو کا طے شدہ دورانیہ دو سے تین گھنٹے ہے۔ یہ دو سے تین گھنٹے آپ کو سڑک پر اکیلے گزارنے پڑتے ہیں۔ اس دوران آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ موٹر وے پر اشیاء کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے کیا کسی نے کبھی سوچا یہ اتنی مہنگی کیوں ہیں؟ یہیں سے گزر کے چیزیں دیگر شہروں میں پہنچتی ہیں تو قیمت کم ہوتی ہے اور یہاں قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں؟ پوری موٹر وے پر ڈھنگ کی ایک ورکشاپ نہیں ہے۔ گاڑی کو ایک پنکچر ہو تو یہ سوا مار کر دو چار پنکچر مزید کر دیتے ہیں۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو طبی امداد پہنچنے تک بندہ ویسے ہی مر چکا ہوتا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد تک ایک بھی ہنگامی طبی امداد کا یونٹ موجود نہیں ہے۔ نیچے سے اوپر تک ایک شیطانی بندو بست ہے جس کا مقصد مسافر کو سہولت پہنچانے کی بجائے اسے لوٹنا ہے۔ ایسے میں کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو دو چار دن شور مچتا ہے اور اس کے بعد رعایا سر جھکا کر خود کو اس شیطانی شکنجے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔

انتظامی پہلو کا تعلق پولیس سے بھی ہے لیکن اس پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب کسی کو اس باب میں کوئی شک نہیں رہا کہ جب تک یہ محکمہ پولیس قائم ہے جرائم ختم نہیں ہو سکتے۔ فوجداری کا یہ پورا ڈھانچہ 1857کی جنگ آزادی کے تین سال بعد یہ سوچ کر قائم کیا گیا کہ رعایا آئندہ کبھی گستاخی کا سوچ بھی نہ سکے۔ ہماری پولیس آج بھی 1861کے ڈھانچے پر کھڑی ہے۔ ہمارا فوجداری قانون" تعزیرات پاکستان "1860 کا ہے۔ ہمارا ضابطہ فوجداری 1898 کا ہے۔ 122 سال پہلے کے زمانے میں، جب ذرائع مواصلات نہ ہونے کے برابر تھے، ملزم سے تفتیش کے لیے 14 دن کا ریمانڈ ہوتا تھا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ ریمانڈ اتنے ہی دنوں کا ہوتا ہے اور پولیس ملزم کو حوالات میں رکھ کر" تفتیش " فرماتی رہتی ہے۔ پورا قانون ہی مجموعہ لطائف بن چکا ہے اور ظلم کی بنیاد یہی فرسودہ قانون ہے۔ لیکن پارلیمان کے پاس وقت ہی نہیں کہ قانون سازی کرے۔

قانون سازی کے ذریعے پولیس میں انتظامی اصلاحات کی بجائے محض پروپیگنڈے کے زور پر میدان مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عمران خان تو سی سی پی او کو اس لیے لائے کہ سی سی پی او کے پاس ایک انقلابی پلان تھا اور وہ پولیس میں کالی بھیڑوں کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے تھے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کورٹ مارشل کسی سی سی پی او کے انقلابی منصوبے سے نہیں ہو سکتا اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ وہ قانون سازی کہاں ہے؟ کبھی ناصر درانی کے ذریعے انقلاب لایا جاتا ہے، کبھی انعام غنی کے ذریعے، کبھی شعیب دستگیر کے ذریعے تو کبھی امجد جاوید سلیمی کی شکل میں۔ آئے روز آئی جی بدل کر انقلاب لایا جا رہا ہے لیکن قانون سازی کا بھاری پتھر کوئی نہیں اٹھا رہا۔ کیا اس رویے سے اصلاح احوال ہو پائے گی؟

جب کبھی حادثہ ہوتا ہے کچھ سیانے ہمیں سمجھانے آ جاتے ہیں کہ معاشرہ سزائوں سے ٹھیک نہیں ہو سکتا، اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ نقص فہم اور خلط مبحث ہے۔ بلاشبہ تربیت کی ضرورت ہر معاشرے کو ہوتی ہے لیکن جب جرم ہو جاتا ہے تو سزا کا اطلاق بھی لازم ہوتاہے۔ یہ بات خود مغربی جورسپروڈنس میں بھی موجود ہے کہ سزا کے مقاصد میں ایک مقصد "ڈیٹرنس" بھی ہے یعنی باقیوں کے لیے عبرت۔ قصاص کو اسی لیے قرآن نے زندگی کہا ہے۔ تربیت ضرور کیجیے لیکن کچھ چیزیں انسان کی جبلت میں ہوتی ہیں۔ ہر انسان کو معلوم ہے کسی کی ماں بہن بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنانا ظلم ہے۔ اب اس کے باوجود کوئی یہ جرم کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا کا مستحق ہے۔ ایسی سزا کہ اس جیسے باقی موذیوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ ہر چیز میں مغرب کی نقالی مناسب نہیں۔ اپنا گھر ٹھیک کیجیے۔ نیوزی لینڈ نے ابھی ایک مجرم کو مثالی سزا کے طور پر تاحیات عمر قید دی تو وزیر اعظم نیوزی لینڈ نے کہا اب یہ ساری عمر باہر نہیں آئے گا۔ لیکن پاکستان میں عمر قید کا مجرم تیرہ سال آٹھ ماہ بعد رہا ہو کر سماج میں دندنا رہا ہوتا ہے۔ ہم مجموعہ تضادات بن کر رہ گئے ہیں۔ چونکہ دوسرے کی بہن بیٹی روندی گئی ہے اس لیے دانشوری فرمانا آسان کام ہوتا ہے کہ سزا مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلوں نے کبھی بھی حل نہیں ہونا۔ خیر اور شر چلتا رہنا ہے، بس سزا اور جزا بھی ساتھ چلتی رہنی چاہیے۔ جب مجرم کو یقین ہو گا کہ قانون لاگو ہو کر رہے گا تو یہ خوف ڈیٹرنس کا کردار ادا کرے گا اور جرم کا امکان محدود ہو جائے گا۔

ہمارے سماجی رویے بھی بہت تکلیف دہ ہو چکے ہیں۔ ہم اخلاقیات کے داروغے بن چکے ہیں۔ سی سی پی او کا بنیادی کام امن عامہ کو یقینی بنانا تھا لیکن انہوں نے بھی اخلاقی وعظ جھاڑنا مناسب سمجھا کہ رات کو کیوں نکلی؟ پٹرول کیوں نہیں چیک کیا؟ جی ٹی روڈ سے کیوں نہیں گئی؟ وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے اس سانحے میں سے سازش برآمد فرما لی کہ یہ دیگر معاملات سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ وہی بات کہ قیامت دوسرے کی دہلیز پر اترے تو دانشوری کی ڈگڈگی بجانا آسان ہو جاتا ہے۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad