Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Marghzar Ke Qatil

Marghzar Ke Qatil

مرغزار کے قاتل

مارگلہ کے جنگل کی دہلیز پر " مرغزار" پھیلا ہوا ہے۔ اس کا دوسرا نام چڑیا گھر ہے۔ قدرتی ماحول اور خوبصورتی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا خوبصورت ترین چڑیا گھر ہے۔ درختوں میں گھرا، پہاڑ ی سلسلے سے لپٹا یہ اتنا حسین ماحول ہے کہ چڑیا گھر لگتا ہی نہیں۔ یوں سمجھیے کہ یہ ہے تو ایک جنگل ہی، بس یہ ہے کہ یہاں جانور ایک ہائوسنگ کالونی بنا کر اپنے اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ جانوروں کی بد بختی اور ہمارا دکھ کہہ لیجیے کہ اس ہائوسنگ کالونی کا انتظام سی ڈی اے کے پاس ہے جس نے اپنی بے حسی، غفلت اور درندگی سے اس گوشہ عافیت کو مقتل بنا دیا ہے۔

خانس پور کی حسین بستی سے واپس اسلام آباد آ رہا تھا کہ بیرسٹر عمیر کی کال آئی۔ بتایا کہ رات مرغزار میں جنگل انتظامیہ نے شیر اور شیرنی کو تشدد کے بعد جلا کر مار دیا۔ وہ اس کی تفصیل بیان کرتے رہے کہ کیسے انتظامیہ نے پہلے اس شیر اور شیرنی کو کو ڈنڈوں سے مار مار کر زخمی کیا اور پھر اسے آگ لگا دی۔ وہ ایف آئی آر کے مندرجات بھی سنا رہے تھے لیکن یہ سب سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔

برسوں پہلے کی بات ہے، اس جنگل میں ببر شیروں کا ایک جوڑا تھا، جو نہ رہا۔ کچھ معلوم نہیں مر گئے تھے یا انہیں بھی مار دیا گیا تھا۔ مارگلہ کے جنگل کے اندر سے ٹریک پر چلتے ہم دامن کوہ کی طرف کافی اوپر نکل جاتے۔ پھر دن ڈھلنے لگتا اور شام کے سائے اتر آتے۔ یہ وہ وقت ہوتا جب مرغزار میں ببرشیر دھاڑتا تھا۔ یہ سارا سفر ہم اس کی دھاڑ سننے کے لیے طے کرتے تھے۔ ویسے تو یہ دھاڑ مرغزار میں بنچ پر بیٹھ کر بھی سنی جا سکتی تھی لیکن اوپر پہاڑ کی طرف جنگل کے سناٹے میں بیٹھ کر ببر شیر کی دھاڑ سننے کا جو لطف تھا وہ بیان سے باہر تھا۔ ذرا تصور کیجیے آپ پہاڑ کی چوٹی پر ایک خاموش گوشے میں بیٹھے ہوں، پرندے چہک رہے ہوں اور اچانک ببر شیر دھاڑنا شروع کر دے اور ہر شے سہم جائے۔ جب شیر دھاڑتا تھا تو جنگل ایک خاص کیفیت میں چلا جاتا تھا، یہی کیفیت دیکھنے کے لیے کتنی ہی شامیں مارگلہ کے پہاڑوں میں گزریں۔ پھر جانے کیا ہواشیر نہ رہے۔ جنگل اور اس کی شام دونوں اداس ہو گئے۔ بہت سالوں کے بعد کہیں سے شیروں کا ایک جوڑا جنگل میں لایا گیا۔

بہت سالوں بعد جنگل نے شیر کی دھاڑ سنی۔ سینہ گزٹ پھیلا تو ایک شام ہم دوست پھر وہیں جا کر بیٹھ گئے جہاں زمانہ طالب علمی میں برسوں پہلے بیٹھا کرتے تھے۔ جنگل میں شام اتر رہی تھی، شیر دھاڑ رہا تھا۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ پھر شیروں کے اس جوڑے کے ہاں بچے ہوئے۔ جنگل کو گویا ولی عہد مل گئے۔ جنگل آباد ہو گیا۔ اس آباد جنگل میں رات یہ قیامت اتری کہ اہلکاروں نے پہلے شیر اور شیرنی کو ڈنڈوں سے مار مار کر زخمی کیا اور پھر اسے جلا کر مار دیا۔ کوئی دکھ سا دکھ ہے؟

تین نیل گائیں مر گئیں، کیا ہوا؟ کیسے مر گئیں؟ مر گئیں یا مار دی گئیں؟ مار دی گئیں کی بات میں برائے وزن بیت نہیں کہہ رہا۔ سہیلی کے مرنے پر بہت سے سوالات اٹھے تھے جنہیں دبا دیا گیا۔ ایک واقف حال نے مجھے خود بتایا تھا کہ سہیلی کو زہر دے کر مارا گیا ہے۔ اس پر شور مچا تو یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن کر دیا گیا کہ ہم نے نمونے نیشنل ویٹرنری لیبارٹری بھجوا دیے ہیں معلوم ہو جائے گا زہر ہے یا نہیں۔ آج تک ہمیں تو معلوم نہیں ہو سکا یہ نمونے بھیجے گئے تو جواب کیا آیا۔ تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ نیل گائیں مر گئیں یا کاٹ کے کھا لی گئیں۔ کتنے ہرن ہیں، ان کی افزائش نسل ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟ عید کے دنوں میں جانوروں کو کتنے دن بھوکا رہنا پڑتا ہے؟ اس طرح کے اتنے سوالات ہیں کہ جی کرتا ہے مرغزار کے جانور آزاد کر دیے جائیں اور انتظامیہ کو پنجروں میں ڈال دیا جائے۔

پچھلے سال بھی دسمبر میں آٹھ نیل گائیں مری تھیں اور پوسٹ مارٹم سے تصدیق ہو گئی تھی کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے وہ کون ہے جو کبھی سہیلی نام کی پیاری سی ہتھنی کو زہر سے مار دیتا ہے اور کبھی نیل گایوں کو؟ سوال یہ بھی ہے کہ اسلام آباد چڑیا گھر کی انتظامیہ کیوں نہیں تبدیل کی جاتی؟ یہ لوگ کیوں مسلط ہیں؟ کیا یہ باہمی جھگڑے ہیں جو جانوروں کی خوراک کے پیسوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں؟ کیا ہم شہری یہ جاننے کا حق نہیں رکھتے کہ اسلام آباد چڑیا گھر کا کتنا بجٹ ہے اور یہ کہاں جاتا ہے؟ جانور لاغر کیوں ہیں؟

ہاتھی کا یہ حال ہے سالوں سے اس کے شیڈ کی چھت اڑ چکی ہے۔ دسمبر کی سردی میں بارش اترے تو اس کے لیے کوئی جائے امان نہیں اور جون کی دھوپ پڑے تو اس کے لیے کوئی سائباں نہیں۔ بطخوں کی جھیل جب دیکھی خشک ہی دیکھی۔ راج ہنسوں کی جھیل میں بھی کبھی پانی نہیں ہوتا، خشک جھیل کے کنارے وہ بے چارے سہمے پڑے ہوتے ہیں۔ پرندوں کی اتنی خوبصورت آئیوری بنی تھی کہ یہ گوشہ جنت ارضی سا لگتا تھا وہ بھی برباد کر دیا گیا ہے۔ بھورا ریچھ زخمی ہوا تو مہینوں زخم رستا رہا کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ شتر مرغ کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے مارا گیا۔ ہائی کورٹ نے جنگل منتقل کرنے کا حکم دیا تو انتظامیہ نے آرام سے فرما دیا منتقلی کے دوران دو پاڑے ہرن، دو چیتل ہرن ایک چتکارا ہرن اور ایک نیل گائے مر گئی۔ کوئی تو ان سے پوچھے تم نے انہیں کاٹ کھایا یا یہ خود ہی مر گئے؟ منتقلی کے دوران اتنی اموات کیسے ہو سکتی ہیں؟ پرندوں کا تو کچھ پوچھیے ہی نہیں، کتنے نایاب پرندے غائب کر کے کہہ دیا گیا مر گئے۔

کوئی ہے جو اس قتل عام پر، اس درندگی پر ان ظالموں سے سوال پوچھ سکے؟

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad