مدارس نے کب بندوق اٹھائی تھی؟
مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرتے ہوئے وزیر داخلہ جناب شیخ رشید نے فرمایا کہ مولانا دینی مدارس کے زیادہ خیر خواہ بننے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس صورت میں مجھے انہیں یاد دلانا پڑے گا کہ جب دینی مدارس نے بندوق اٹھائی تھی تو مولانا ہماری حکومت کے ساتھ تھے اور ہم سب ایک کمرے میں مل کر بیٹھا کرتے تھے۔ سیاسی فقرے بازی کے اس آزار میں مولانا کی مولانا جانیں لیکن ایک شہری کے طور پر میں اپنے وزیر داخلہ سے یہ سوال ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب محترم ذرا رہنمائی فرما دیں مدارس نے کب بندوق اٹھائی تھی؟ حوادث زمانہ کسی کو مسند ارشاد سونپ دیں تو اسے اتنا احساس تو ہونا چاہیے وہ کس اہم منصب پر فائز ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟ ہر زبان میں، موقع اور نزاکت دیکھے بغیر بولے چلے جانا کوئی دلاوری نہیں ہوتی، دلاوری یہ ہوتی ہے کہ آدمی کسی زبان میں چپ بھی رہ سکے اور اسے احساس ہو وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس حیثیت سے کہہ رہا ہے۔ ہم ایک مشکل دور سے گزرے ہیں۔ دہشت گردی کے اس طوفان نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انفرادی طور پر ہو سکتا ہے ایک آدھ مدرسے کے کسی طالب علم نے بندوق اٹھائی ہو لیکن مدارس کو یوں مجموعی طور پر بندوق اٹھانے کاطعنہ دینا معلومات یا دیانت میں سے کسی ایک کے فقدان کی خبر دے رہا ہے۔ یہ رہنمائی اب صاحب منصب ہی کو زیبا کہ بحران اور فقدان کس چیز کا ہے۔ حقیقت مگر کچھ اور ہے اور اہل مدرسہ اور ان کے ترجمان خاموش ہیں تو ایک شہری کے طور پر ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ جواب آں غزل، میں پیش کر دیتا ہوں۔
پاکستان میں مدارس کے تین بڑے وفاق کام کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا نیٹ ورک وفاق المدارس کا ہے۔ قریبا بائیس ہزار مدارس اس نظم سے وابستہ ہیں اور پچیس لاکھ کے قریب طالب علم ان مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ ہماری رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ ان بائیس ہزار مدارس کے پچیس لاکھ طالب علموں میں سے کتنوں نے بندوق اٹھائی تھی، کتنے مدارس، کتنے معلم، کتنے مہتمم اور کتنے طلباء بندوق اٹھا کر ریاست اور حکومت سے الجھے تھے؟ وفاق المدارس کے صدر شیخ الحدیث ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر ہیں، نائب صدر مفتی رفیع عثمانی ہیں اور سیکرٹری جنرل اور ناظم اعلی حنیف جالندھری صاحب ہیں۔ کیا وزیر داخلہ ہمیں بتا نا پسند کریں گے ان میں سے کس شخص کے خلاف بندوق اٹھانے کے کتنے مقدمات ہیں اور کون کتنے مقدمات میں مطلوب ہے؟ یہ نہیں تو اتنا ہی بتا دیجیے کہ ان میں سے کس نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے کی کب اور کہاں حمایت کی تھی؟
مولانا حسن جان قریب ایک عشرہ وفاق المدارس کے نائب صدر رہے۔ جید عالم دین تھے۔ شیخ الحدیث تھے۔ کیاجناب شیخ رشید کو بھول چکا ہے کہ مولانا حسن جان نے خود کش حملوں کے خلاف فتوی دیا تھا اور 16 ستمبر 2007 کو انہیں اس وقت قتل کر دیا گیاجب شیخ صاحب مشرف حکومت میں وزیر اطلاعات تھے؟ سیاست کے سینے میں دل تو کبھی بھی نہ تھا، کیا اس کی آنکھ سے مروت بھی اٹھ گئی؟
مدارس کے دوسرے بڑے وفاق کا نام تنظیم المدارس ہے۔ دس ہزار کے قریب مدارس اس کے نظم سے جڑے ہیں جہاں پندرہ لاکھ کے قریب طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ بتانا پسند کریں ان دس ہزار مدارس کے پندرہ لاکھ طلبا میں سے کتنوں نے بندوق اٹھائی تھی؟ جماعت اسلامی کا رابطہ المدارس ہے، اس کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ مدارس کام کر رہے ہیں۔ اہل حدیث مکتب فکر کے وفاق المدارس السلفیہ کے ساتھ ڈیڑھ ہزار مدارس رجسٹر ہیں اور پچاس ہزار کے قریب طلبا یہاں پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع مکتب فکر کے بھی قریبا پانچ سو مدارس ہیں جہاں بیس ہزار کے قریب طلبا پڑھ رہے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ کے پاس کوئی اعدادو شمار ہیں کہ ان میں سے کتنوں نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی؟ پاکستان کا وزیر داخلہ جب بات کر رہا ہو ااور اتنے نازک اور سنجیدہ موضوع پر بات کر رہا ہو تو اس کا رویہ اس کا لہجہ اور اس کا متن سنجیدہ اور ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔ وزیر داخلہ بھلے اپنی افتاد طبع کے اسیر ہوں لیکن منصب سے جڑے تقاضوں کو یوں پامال نہیں کرنا چاہیے کہ امور ریاست کار طفلاں لگنے لگیں۔ ایسی " سویپنگ سٹیٹمنٹ" دے دینا جو غلط بیانی کے زمرے میں بھی آتی ہو اور خلاف واقعہ بھی ہو افسوسناک ہی نہیں تکلیف دہ بھی ہے۔ سیاسی اختلاف سیاسی جماعتوں میں ہوتے ہیں لیکن کہیں جا کر ایک باٹم لائن بھی ہوتی ہے کہ اودھم مچایا جائے گا لیکن اس حد سے زیادہ نہیں۔ نہ مولانا نے کوئی کسر چھوڑ رکھی ہے نہ حکومت نے۔ نہ ہی ہماری کوئی ایسی خواہش ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے بارے میں ہاتھ ہولا رکھیں۔ لیکن باہمی جھگڑوں میں یہ کیسا غلو ہے کہ وزیر داخلہ کے منصب پر بیٹھا آدمی فرد جرم کی روبکار سیاسی حریف کی بجائے دینی مدارس کے نام روانہ کر دے؟
پاکستان کے دینی مدارس نے کبھی ریاست کے خلاف بندوق نہیں اٹھائی۔ کہیں کوئی استثنائی صورت حال ہو سکتی ہے لیکن اسے یوں عمومی رنگ دے کر اجتماعی فرد جرم میں بدل دینا نرم سے نرم الفاظ میں ایک غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ سیاسی اختلافات جمہوری عمل کا حسن ہوتے ہیں لیکن اس حقیقت کا انکار مشکل ہے کہ دینی مدارس کو قومی جمہوری اور آئینی دھارے سے جوڑے رکھنے میں خود مولانا فضل الرحمن کا کردار مثبت اور اچھا رہا ہے اور جہاں ان کی سیاست کے بعض پہلوئوں پر تنقید کی جاتی ہے وہیں ان کی سیاست کے اس پہلو کی تحسین کی جانی چاہیے۔
جناب شیخ کی فرد جرم حقائق اور دلیل کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں رکھتی۔ وزیر داخلہ اپنا ریکارڈ درست فرما لیں یا ہماری معلومات میں اضافہ کر دیں۔ ہر دو صورتوں میں عین نوازش ہو گی۔ ایسے منصب پر بیٹھ کرغیر ذمہ دارانہ بات، برائے وزن بیت ہی کیوں نہ ہو، معیوب ہی رہتی ہے۔