Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Kya Iran Aur America Mein Jung Ho Sakti Hai?

Kya Iran Aur America Mein Jung Ho Sakti Hai?

کیا ایران اور امریکہ میں جنگ ہو سکتی ہے؟

کیا ایران اور امریکہ میں جنگ ہو سکتی ہے؟ چند سال قبل میرے مطابق اس کا جواب نفی میں تھا، آج اس سوال کا جواب " ہاں " ہے۔ جن عوامل نے امریکہ کو اس تصادم سے روک رکھا تھا، ان میں اب وہ شدت نہیں رہی کہ امریکہ کو کسی مہم جوئی سے روک سکیں۔ ایران کے جس ممکنہ اقدام سے امریکہ خائف ہوا کرتا تھا اب ہو سکتا ہے امریکہ خود یہ چاہتا ہو ایران وہ قدم اٹھا ہی لے۔ طاقت کا توازن ہی نہیں، پورا منظر نامہ بدل چکا ہے اور انتہائی خوفناک طوفان خطے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

آبنائے ہر مز ایران کی طاقت تھا۔ بحیرہ عرب خلیج فارس، اور خلیج عمان کے درمیان تیل کی ترسیل کا یہی واحد راستہ ہے۔ ا س کا مرکز آبنائے ہر مز ہے۔ آبنائے ہرمز کے دائیں بائیں ایران ہے۔ پوری خلیج فارس کے ساتھ بھی ایران کی سرحد ہے اور خلیج عمان کی جانب بھی ایران ہے۔ آبنائے ہر مز کی چوڑائی صرف 21 میل ہے۔ لیکن ان 21 میلوں میں سے ہر جگہ جہاز نہیں گزر سکتے۔ سپر ٹینکرز کے گزرنے کے قابل جو علاقہ ہے اس شپنگ لین کی چوڑائی صرف دو میل ہے۔ ایران جب چاہے دو میل کی اس پٹی سے جہازوں کی آمدورفت کو روک سکتا ہے۔

کیا ہمیں معلوم ہے یہ آمدو رفت اگر روک دی جاتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کویت، قطر، یو اے ای اور سعودی عرب کا تیل دنیا تک نہیں پہنچ سکتا۔ دنیا کو تیل کی سپلائی کا بیس فیصد یہاں سے جاتا ہے اور ہر روز آبنائے ہر مز سے 22 ملین بیرل تیل گزرتا ہے۔ سینکڑوں میل پر پھیلا بارڈر ایران کو یہ غیر معمولی صلاحیت دیتا ہے کہ وہ جب چاہے آبنائے ہر مز بند کر دے۔ ایران کے ہاتھ یہ ایک ایسی جغرافیائی برتری ہے جس کا اب تک کوئی متبادل نہیں۔

آبنائے ہر مز کے حوالے سے ایران کی اس برتری کا امریکہ کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ امریکی بحری قوت بھی ایران کو آبنائے ہرمز پر اثر انداز ہونے سے نہیں روک سکتی کیونکہ معمولی سے ایرانی ساختہ میزائلوں سے بھی اس شپنگ لین کو معطل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ افغانستان میں قبضے کے باوجود طالبان ختم نہیں ہو سکے اور آئے روز وہاں حملے ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ اگر ایران کی بری، بحری اور فضائی قوت تباہ بھی کر دے اور وہاں زمینی طور قبضہ بھی کر لے تب بھی ایران کے چند جنگجو مقامی ساختی میزائل کندھے پر رکھ کر اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ آبنائے ہر مز سے تیل کے ٹینکر نہ گزریں۔ یہ وہ پہلو تھا جس نے ایران کو کسی بھی امریکی مہم جوئی سے بچائے رکھا۔

ایران کی ناگزیریت کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ وہ مشرق وسطی کی سیاست کا ایک کا ایک کردار ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی کشکش ایک حقیقت ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔ وہ اس دائمی کشمکش کے ایک کردار کو کیوں ختم کرے گا؟ یہ پہلو اب بھی کسی حد تک موجود ہے، تاہم یہ آج کا موضوع نہیں۔ آج آبنائے ہر مز پر بات ہو گی۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد آبنائے ہر مز کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ٹرمپ نے آتے ہی یہ سوال اٹھایا کہ جمی کارٹر کے زمانےسے امریکہ نے آبنائے ہر مز کی حفاظت کی جو ذمہ داری لے رکھی ہے اس سے امریکہ کو کیا ملا۔ ٹرمپ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آبنائے ہر مز سے تیل صرف امریکہ کو تو نہیں جاتا ساری دنیا کو جاتا ہے۔ اب تیل اگر ساری دنیا کو جاتا ہے تو اس کی حفاظت امریکہ اکیلے کیوں کرتا پھرے؟ امریکہ میں اس پر کافی بحث ہوئی کہ تیل کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے امریکی بحریہ موجود ہے تو کیوں اور کس لیے؟

امریکی سوچ میں اس تبدیلی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ چین ہے۔ چین دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چین سعودی عرب سے ہر روز8 ملین ٹن تیل خرید رہا ہے۔ یہ تیل چین تک کیسے پہنچتا ہے؟ آبنائے ہرمز سے گزر کر۔ اب امریکی پالیسی سازوں کے پیش نظر سوال یہ تھا کہ ہر روز 8 ملین ٹن تیل آبنائے ہرمز سے گزر کر چین کو جاتا رہے اور آبنائے ہر مز کی سیکیورٹی کی قیمت معاشی اور سفارتی طور پر ہم ادا کرتے رہیں تو ہمیں بھی کوئی عقل مند کہے گا۔ یہ اگر مجبوری ہے تو ساری دنیا کی ہے۔ اس مجبوری کا بوجھ صرف امریکہ کیوں اٹھائے؟

دوسری وجہ ناروے کا جان سیوڈرپ آئل فیلڈ ہے جس کے نصف درجن سے زیادہ کنویں کامیابی سے کام کرنا شروع ہو چکے ہیں۔ یہاں 480 ملین کیوبک میٹر تیل موجود ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاسی منظر نامے میں اے ٹی ایم کی اصطلاح بہت استعمال کی جاتی ہے تو آسان تفہیم کے لیے جان لیجیے کہ ڈیوڈ نکل نے اس آئل فیلڈ کو ابھی ایک ماہ پہلے ناروے کا اے ٹی ایم قرار دیا ہے۔ ناروے سے پونے چار لاکھ بیرل تیل روزانہ نکل رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگلے دو سالوں میں ناروے سے تیل کی سپلائی اپنے عروج پر ہو گی۔ ناروے امریکی تیل کی ضروریات کا ایک متبادل ہے۔ امریکہ کے پاس مقامی سطح پر بھی متبادل موجود ہے۔ آبنائے ہر مز سے جانے والے تیل کی امریکہ کو آج بھی ضرورت ہے لیکن اس میں اب وہ شدت نہیں رہی کہ امریکہ سفارتی اور تزویراتی سطح پر کمپرومائز کرنے پر مجبور ہوجائے۔ چنانچہ امریکی پالیسی بدل رہی ہے۔ اس نے ایرانی جنرل کو قتل کر کے ایران کو پیغام دیا ہے کہ وقت کا موسم بدل رہا ہے۔ امریکہ شعوری طور پر اب اس کے لیے تیار ہے کہ ایران آبنائے ہر مز بند کر دے تا کہ ذرا چین کو بھی معلوم ہو کہ آبنائے ہر مز کی اہمیت کیا تھی اور امریکہ نے اگر اب تک آبنائے ہر مز کے حوالے سے حساسیت کا مظاہرہ کیا تو کیا یہ صرف امریکہ کا مفاد تھا یا باقی دنیا کا بھی۔ امریکہ شاید چاہتا بھی یہی ہے کہ ایران ایسا کوئی ایڈ ونچر اب کر ہی دے۔ جب تیل کی سپلائی رکے گی تو تیل بیچنے والوں کو بھی لگ پتا جائے گا اور خریدنے والوں کے بھی ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

امریکہ تو اس ایڈونچر کے لیے تیار ہے۔ کیا باقی بھی تیار ہیں؟

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam