کیا عمران کا اصل چیلنج ان کی کابینہ ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے اصل دشمن ان کی اپنی کابینہ ہی میں کہیں چھپے بیٹھے ہوں؟ عمران خان نے سیاست کے روایتی کرداروں کو ایک عرصہ ہدف ملامت بنائے رکھا، ایسا نہ ہو کہ سیاست کے یہی کردار ان کے وزیر مشیر بن کر ان سے غلط فیصلے کروا رہے ہوں اور رات کو کسی کلب میں آپس میں مل بیٹھتے ہوں تو قہقہے لگاتے ہوں کہ بڑا آیا غیر روایتی سیاست دان، دیکھا کیسے پھنسا یا۔
عمران خان کا سیاسی بیانیہ روایتی سیاسی کرداروں کی نفی پر کھڑا ہے۔ حصول اقتدار کی خاطر اگر چہ انہوں نے ایسے ہی کرداروں کو گلے لگایا ہے لیکن ان کے کارکنان میں آج بھی جو بیانیہ رائج ہے وہ اس روایتی سیاست کی نفی پر کھڑا ہے۔ عمران کے وابستگان کے ہاں روایتی سیاست کے یہ کردار اگر ساتھ ملائے گئے ہیں تو یہ مروجہ سیاست کی ایک ناگزیر برائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بیانیہ اگر مستحکم ہوتا ہے تو روایتی سیاسی کرداروں کی افادیت دھیرے دھیرے محدود ہوتی چلی جائے گی۔ یہ وہ بات ہے جسے تحریک انصاف کا کارکن ہی نہیں، روایتی سیاست کے مہرے بھی خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
اس بات کا امکان موجود ہے کہ جس طرح ایک حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف نے انہی کرداروں کو ساتھ ملایا ہو اسی طرح یہ کردار بھی کسی حکمت عملی کے ساتھ ان کے ہمسفر بنے ہوں اور اب اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان سے ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہوں کہ اقتدار کے آخر تک انہیں اتنا بد نام اور اتنا خراب کر دیا جائے کہ روایتی اور غیر روایتی کا فرق مٹ جائے۔ ضروری نہیں یہ خیال درست ہو لیکن معاملات جس غیر حکیمانہ انداز سے چلائے جا رہے ہیں اس کی شرح تلاش کرنے نکلیں تو یہ خیال بھی دامن سے آ کر لپٹ جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت جو اپنی ساکھ اور اخلاقی وجود کے باب میں حساس ہو ایسے فیصلے کرنے سے پہلے بیس مرتبہ سوچتی ہے جو فیصلے یہ حکومت ایک ہی ساعت میں کر گزرتی ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حکومت نے 25 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ لیکن اس اقدام کے باوجود حکومت کے حصے میں تعریف نہیں آئی بلکہ اسے یہ اضافہ کر کے بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے پاس وقت ہے کہ وہ اس کی وجوہات پر غور کرے؟
ذرا تصور کیجیے، یہ اضافہ بجٹ میں کر دیا جاتا تو عمران حکومت کی مقبولیت کا عالم کیا ہوتا؟ بجٹ میں اس سے نصف اضافہ بھی کر دیا جاتا تو حکومت نیک نامی سمیٹ سکتی تھی۔ ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ اب بھی مظاہرین اگر اسلام آباد آ گئے تھے تو احتجاج کے پہلے ہی روز کیا ضرورت تھی کہ شیخ رشید جیسے لوگ آتشیں لہجے میں کلام کر کے معاملات کو مزید خراب کرتے۔ اتنی بے رحمانہ شیلنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ حکومت ایک دن بھی مظاہرین کو برداشت نہ کر سکے اور ایسی سخت کارروائی کر دے اور پھر اسی شام مطالبات بھی مان لے؟ چند گھنٹوں بعد مطالبات تسلیم ہی کرنے تھے تو ایسی بے رحم کارروائی کیوں کی گئی؟ ذرا تصور کیجیے شیخ رشید نے لہجے سے نمک پاشی نہ کی ہوتی اور مظاہرین کے خلاف کارروائی نہ کی جاتی اور وزیر اعظم نے کہا ہوتا کہ معاشی حالات بہت خراب ہیں لیکن اس کے باوجود اب لوگ حکومت سے مطالبہ کرنے آئے ہیں تو انہیں خالی ہاتھ لوٹاتے مجھے حیا آ رہی ہے میں بیس فیصد اضافے کا اعلان کر رہا ہوں۔ ذرا سوچیے کہ حکومت اخلاقی اعتبار سے کہاں کھڑی ہوتی؟
اسلام آباد کے وکلاء کے ساتھ جس طرح انتظامیہ نبٹ رہی ہے اس میں بھی غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ جناب چیف جسٹس اور عدالتوں کا احترام مسلمہ امر ہے، اس پر کوئی دوسری رائے نہیں۔ لیکن وقوعے کے بعدبار کے ایسے ایسے معزز اور معتبر لوگوں کے گھروں پر چن چن کر ریڈ کیا گیا جو نہ وقوعے کے وقت ہائی کورٹ میں موجود تھے نہ انہوں نے اس واقعے کی تائید کی۔ اسلام آباد انتظامیہ مگر انہی کے گھروں پر یلغار کر رہی ہے۔ لیڈی پولیس کے بغیر وکلاء کے گھروں میں آدھی رات کو دیواریں پھلانگ کر جا گھسنا ایک ایسا عمل تھا جس نے اس تاثر کو مستحکم کیا کہ جیسے بار کی اجتماعی توہین سے زیادہ کچھ مقصود نہ ہو۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ آج خود جناب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی اسلام آباد کو طلب کر لیا کہ بے گناہ وکیلوں کے خلاف کارروائی کیوں کی جا رہی ہے۔
جناب چیف جسٹس نے آج اپنے حکم میں لکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات اور ایس پی اسلام آباد مصطفی تنویر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کی بجائے بار کے ان معزز افراد کو کیوں ہراساں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں ملوث نہیں تھے۔ عدالت نے افسران کو حکم دیا کہ رپورٹ پیش کر کے بتائیں کہ کس کے حکم پر ایسے وکلاء کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
سوال وہی ہے۔ کیا عمران خان کی اپنی کابینہ میں کچھ لوگ موجود ہیں جو حکومت کی فصیلوں میں ریت بھر رہے ہیں۔ ان میں آخر ایسے ہیں ہی کتنے جن کا مستقبل عمران خان یا تحریک انصاف سے وابستہ ہو۔ اکثریت تو ایسوں کی ہے جو ہر اقتدار کی گاڑی میں سوار ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ پرویز مشرف کے ساتھ بھی تھے، یہی آصف زرداری کے ساتھ تھے، اور یہی نواز شریف کے ساتھ تھے۔
آدھی کابینہ ایسی ہے بس آرام سے بیٹھی دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہے۔ نہ کبھی کسی نے ان کا بیان سنا نہ کبھی وہ کہیں کسی سے ہمکلام ہوئے۔ وہ ماضی میں بھی وزیر مشیر ہوا کرتے تھے، وہ اب بھی وزیر مشیر ہیں اور وہ مستقبل میں بھی اسی منصب پر ہوں گے۔ ان کا حق اقتدار محفوظ تھا اور محفوظ ہے۔ سوال صرف یہ ہے کیا تحریک انصاف کو اس کا کوئی احساس ہے؟