جونا گڑھ اور مناوادر کا دفاع، حقائق کیا ہیں؟
جوناگڑھ اور مناوادر پر لکھے گئے کالموں پر ایک سوال اٹھایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ دونوں ریاستیں پاکستان سے الحاق کر چکی تھیں تو بھارت کا حملہ اور قبضہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحا خلاف ورزی تھی اور پاکستان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت " سیلف ڈیفنس" میں جوابی کارروائی کا حق حاصل تھا تو پھر پاکستان نے جوابی کارروائی کیوں نہ کی؟
جوابی کارروائی کی دو صورتیں ہو سکتی تھیں۔ پہلی صورت قانونی کارروائی کی تھی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے یہ کارروائی اسی وقت کر دی گئی۔ جونا گڑھ اور اس سے جڑی ریاست مناوادر ہی کا نہیں حیدر آباد کا معاملہ بھی اقوام متحدہ میں پڑا ہے اور ا سپر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ حیدر آباد کا معاملہ خود نظام آف حیدر آباد اقوام متحدہ لے کر گئے اور انہوں نے سلامتی کونسل کو لکھا کہ انہیں بھارتی جارحیت کا خطرہ ہے اس لیے سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ضروری کارروائی کرے۔ اس درخواست پر کارروائی آج تک نہیں ہو سکی۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں فیصلے کا منتظر ہے۔ جونا گڑھ کا مسئلہ بھی اقوام متحدہ میں موجود ہے اور یہ مسئلہ پاکستان لے کر گیا کیونکہ جونا گڑھ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا، جوناگڑھ میں پاکستان کا جھنڈا لہرا چکا تھااور اس پر قبضہ پاکستان پر قبضہ تھا۔ جوابی کارروائی کی دوسری شکل فوجی کارروائی تھی۔ جب جونا گڑھ کی معاشی ناکہ بندی ہوئی تو پاکستان نے شدید بحران سے دوچار ہونے کے باوجود وہاں پولیس کے دستے اور خوراک بھجوائی لیکن جب بھارت نے وہاں فوجی کارروائی کر دی تو پاکستان نے کوئی جوابی کارروائی نہ کی۔ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ وہ میں عرض کیے دیتا ہوں۔
ان ریاستوں کا پاکستان سے کوئی زمینی رابطہ نہیں تھا۔ جونا گڑھ کی ریاست کے تین اطراف میں وہ ریاستیں تھیں جو بھارت میں شامل ہو چکی تھیں۔ یعنی یہ ریاست تین اطراف سے بھارت میں گھری ہوئی تھی۔ چوتھی سمت میں سمندر تھا۔ پاکستان کے پاس ایسی بحریہ نہ تھی کہ وہ سمندری راستے سے مدد کو جاتی۔ پاکستان کے مسائل کو بھی نظر انداز مت کیجیے۔ پاکستان کے حصے میں آنے والا اسلحہ اور اثاثے بھارت نے روک رکھے تھے۔ پنجاب سے لٹے پٹے قافلوں کی آمد جاری تھی ان کو سنبھالنا تھا۔ کشمیر میں قتل عالم جاری تھا۔ پاکستان کے پاس کامن پن تک نہیں تھے اور کانٹوں سے کام لیا جاتا رہا۔ پاکستان کی پوزیشن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہو گا تاریخ کے ایک اور گوشے کو سامنے لایا جائے۔ یہ گوشہ قائد اعظم اور جنرل گریسی سے متعلق ہے۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج کشی کا حکم دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ حقائق کچھ اور ہیں جو خود جنرل گریسی نے تفصیل سے بیان کیے ہیں اور جنرل کے ایم عارف کی کتاب Estranged Neighbours میں موجود جنرل گریسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خط سے ان حقائق کا پتا چل سکتا ہے۔ جنرل گریسی لکھتے ہیں " جس رات مہارجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا اس رات مجھے فرانسس موڈی کے ملٹری سیکرٹری کا فون آیا کہ جناح صاحب کا حکم ہے میں کشمیر میں فوج کشی کر دوں۔ میں نے سمجھا کہ یہ سیکرٹری نشے میں ہے کیونکہ ایسا حکم جناح صاحب نے دیا ہوتا تو تحریری طور پر دیتے یا پھر براہ راست مجھے فون کرتے۔"
اگلے دن جنرل گریسی گورنر ہائوس لاہور میں قائد اعظم سے جا کر ملے اور انہیں بریف کیا۔ جنرل گریسی کا یہ دعوی ہے کہ بریفنگ سن کر قائد اعظم نے ان سے اتفاق کیا اور احکامات واپس لے لیے۔ یہ بریفنگ اس وقت کی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے اور اس بریفنگ میں یہ جواب پوشیدہ ہے کہ پاکستان جوناگڑھ وغیرہ کے لیے فوجی کارروائی کیوں نہ کر سکا۔ جنرل گریسی کے مطابق کشمیر میں فوجی کارروائی ممکن نہ ہونے کی وجوہات یہ تھیں
:1۔ وزیرستان میں ابھی چھاونیاں موجود تھیں جہاں دستے تعینات تھے اور ان کی ضرورت تھی۔ 2۔ ایئر فورس کے سارے افسر برطانوی تھے، دیگر سٹاف میں بھی برطانوی اور ہندوستانیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ 3۔ سیونتھ ڈویژن کا صرف ایک حصہ ہمارے پاس پنڈی میں تعینات تھااور وہ سکھوں پر مشتمل تھا۔ 4۔ پاکستان بٹالین کے جو دستے دستیاب تھے وہ مہاجرین کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ 5۔ انڈیا بٹالین، گورکھا بٹالین اور مدراس بٹالین نے ویسے ہی بھارت جا رہی تھیں۔ 6۔ لاہور میں تعینات تمام دستے قریب قریب گورکھا بٹالین اور گڑھوالی بٹالین کے تھے۔ 7۔ پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج کے بہت سے افسر بھی ابھی تک برطانوی اور ہندوستانی تھے اور پاکستان آرمی کے اسلحہ اور ڈپو کے انتظامات کو دیکھنے والے افسران میں بڑی تعداد میں بھارتی افسر موجود تھے۔ 8۔ تقسیم سے پہلے کی ہندوستانی آرمی میں ایک یونٹ بھی ایسی نہ تھی جو صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوتی۔ 9۔ پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج کے بہت سے دستے ابھی بن غازی، برما اور ملائیشیا میں بکھرے پڑے تھے۔
یہ معمولی وجوہات نہ تھیں۔ ملک بنے ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے۔ سارا ڈھانچہ پرانی فوج کا تھا۔ ابھی تک بھارتی افسران پاک آرمی میں تھے۔ نئی ترتیب ابھی بن رہی تھی۔ ان حالات میں پاکستان کا آرمی چیف کشمیر پر حملہ نہ کر سکا وہ جونا گڑھ اور منا وادر کا دفاع کیسے کرتا؟ اگر آپ سوچ رہے ہوں کہ جنرل گریسی نے جان بوجھ کر ٖغلط تصویر پیش کی اور وہ جنگ سے پہلو تہو کر رہے تھے تو ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ چند ماہ بعد اسی جنرل گریسی نے قائد اعظم کو خط لکھا کہ جناب گورنر جنرل بھارت کو روکنے کیلئے کشمیر میں فوجیں اتارنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس خط میں وہ تمام وجوہات بیان کر دی گئی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی فوج کو بے سروسامانی کے عالم میں کشمیر میں اتارا گیا اور اس نے بھارتی پیش قدمی کو روک دیا۔ قوموں کی زندگی میں اچھا برا وقت آتا رہتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جونا گڑھ کا مسئلہ اقوام متحدہ میں موجود ہے اور ایک عزم اور تذکیر کے طور پر پاکستانی نقشے میں بھی موجود ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جونا گڑھ اور مناوادر تو ہمارے حافظے سے محو ہی ہو چکے تھے، یہ کشمیر کا درد ہے جس نے پاکستان کو کئی اور درد یاد دلا دیے اور پالیسی کی سمت درست کر دی۔ محور کشمیر ہی ہے۔