اس قوم کو کوئی تعزیت کے آداب سکھائے
زوال کی یہ انتہاء ہے کہ گدھوں کی طرح یہاں لوگ کفن نوچنے آ جاتے ہیں۔ ِ سوچ رہا ہوں کوئی ہے جو اس قوم کو تعزیت کے آداب سکھا سکے؟
خادم حسین رضوی اپنے اللہ کے حضور پہنچ چکے۔ یہ وقت وداع ہے۔ اس لمحے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ لازم ہے کہ زبان سے خیر نہ نکل سکے تو زبان تھام لی جائے۔ ہر موقع زہر تھوکنے کا نہیں ہوتا۔ ہر وقت ترکش خالی نہیں کیے جاتے۔ کبھی وجود کو تھام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ بات ہماری بنیادی قدروں میں سے ہے کہ جانے والے کی خوبیوں کو یاد کرو۔ ہمارا اخلاقی زوال لیکن اتنا شدید ہو چکا ہے کہ ہم قبر پر مٹی ڈالے جانے کا بھی انتظار نہیں کرتے اور اپنے وجود کا سارا کوڑا باہر پھینک دیتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ تعفن سے دوسروں کا دم گھٹ جائے گا۔
رات گھر لوٹا تو اہلیہ نے خبر دی خادم حسین رضوی کا انتقال ہو گیا۔ جس بوڑھے کی حکمت عملی سے اختلاف کرتے ہوئے ہم نے گھنٹوں ڈرائیونگ کرتے لمبی لمبی بحثیں کی تھیں، اس کی وفات کی خبر سنی تو دکھ ہوا۔ انتقال کی خبر جب بیماری کی خبر سے پہلے آن پہنچے تو تکلیف میں حیرت کا دکھ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یادوں نے ہجوم کیا اور ماضی کا دریچہ کھل گیا۔
خادم حسین رضوی صاحب نے جب راولپنڈی میں پہلا دھرنا دیا تو بڑا مشکل وقت تھا۔ جڑواں شہروں میں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں ہونے لگا۔ انہی دنوں ایک شام میں نے انہیں اپنے ٹاک شو میں فون پر زحمت دی اور یہی سوال ان سے پوچھ لیا کہ آپ فیض آباد چوک پر بیٹھے ہیں اور لوگوں کو اس سے تکلیف ہو رہی ہے۔ رضوی صاحب نے جواب دیا:" اول تو لوگوں کو گھر جانا ہی نہیں چاہیے، ادھر ہمارے پاس آنا چاہیے، لیکن اگر پھر بھی کسی کو بیوی کے پاس پہنچنے کی جلدی ہو تو دو گھنٹے سے تاخیر سے پہنچ جانے پر قیامت نہیں آ جائے گی۔"
تب تک رضوی صاحب سے اتنی آگہی نہ تھی، جواب نے مجھے ششدر کر دیا۔ اوپر سے کیمرا مین ہنسنے لگ گئے۔ رضوی صاحب نے دیکھا کہ یہ اگلا سوال نہیں کر رہا تو پوچھا " ہور کجھ "۔ انداز ایسا تھا کہ پتر تو کر اگلاسوال اور میں تیری طبیعت صاٖ ف کروں۔ میں نے عرض کی نہیں حضرت ہور کجھ نئیں۔ اتنا کافی ہے"۔
سوال اب ایک اور ہے۔ سوال یہ ہے کسی شخص کے انتقال کر جانے پر ہمارے رویے کیسے ہونے چاہییں؟ ہمیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ جب کوئی شخص بچھڑتا ہے تو اس کے چاہنے والوں کے دل غم سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ایسا کون ہے جس کی حکمت عملی پر ہم سب متفق ہوں؟ جب تک سانس کی ڈوری سے ہم بندھے ہیں اختلاف تو رہے گا۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اختلاف کے نشتر سے مرحوم کے وابستگان کو عین اس وقت گھائل کیا جائے جب وہ تہجیز و تکفین میں مصروف ہوں اور دکھ سے بے حال۔ کیا ہم میں اتنی بھی انسانیت نہیں کہ ہم اتنی دیر تک اپنے تیر اور تلواریں رکھ چھوڑیں جتنی دیر میں لواحقین اپنے آدمی کو قبر میں سلا لیں۔
حمید گل مرحوم سے میرا قریبی تعلق تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو ایک طبقے نے وہ دھول اڑائی کہ الامان۔ عاصمہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو یہی سلسلہ ایک بار پھر چل پڑا۔ اور اب تو روایت سی بن گئی ہے۔ ادھر کسی کی جان نکلتی ہے ادھر ناقدین حساب کتاب کے کھاتے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں یہ رویہ کتنا نا معقول اور کتنا غیر انسانی ہے۔ ایک آدمی، کسی بھی صف اور کسی بھی فکر کا ہو، جب فوت ہو جائے تو وہ وقت اس کے بارے کلمہ خیر کہنے اور اس کے لواحقین کو تسلی اور دلاسے کا ہوتا ہے۔ اس کی توفیق نہ ہو تو آدمی کے لیے مناسب ہے خاموش رہے۔ تنقید کرنے اور جانے والے کی فکر اور حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لیے اب عمر پڑی ہوتی ہے۔ ایسی بھی کیا جلدی۔ کم از کم اتنی تہذیب تو ہونی چاہیے کہ تنقید کے ترکش خالی کرنے سے پہلے مرحوم کی قبر کی مٹی خشک ہونے کا انتظار کر لیا جائے۔ نفرتوں کی جو مالا ہم پروئے جا رہے ہیں کیا کسی کو اس کے آزار کا احساس ہے؟
ایسی بھی کیا سفاکی کہ ہم کسی مرحوم کو وقت رخصت دعا کا آخری تحفہ بھی نہ دے سکیں۔ مرنے والا کسی بھی صف کا ہو، ہم اس کی حکمت عملی کے مداح ہوں یا ناقد، اس کے لیے دعائے خیر کے لیے ہاتھ اٹھانے میں کیسا بخل۔ خادم حسین رضوی صاحب کی آج میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ کس والہانہ انداز سے کہہ رہے تھے:
جب روح میری پیراہن خاکی سے نکلے
تو روضے سے صدا آئے وہ میرا فقیر آیا
کیا ہم اس لمحے اس دعا پر آمین بھی نہیں کہہ سکتے؟ مجھے نہیں معلوم آپ کا جواب کیا ہے۔ میں تو آمین ہی کہوں گا۔ میں دعا گو بھی ہوں کہ جو گمان رضوی صاحب کو تھا، اللہ اسے پورا کرے۔ جس روضے والے کے وہ عاشق تھے، خدا کرے وہاں سے انہیں یہ آواز سنائی دے کہ لو میرا فقیر آیا۔ خدا کرے ان کی خواہش پوری ہو اور کہا جائے یہ اپنا آدمی ہے، اسے کچھ نہ کہو، اسے آنے دو۔ ہمارے پاس جانے والے کے لیے دعائوں کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ ہر صف کے انتہا پسندوں کو سوچنا چاہیے کہ دعائوں میں اور دعائوں پر آمین کہنے میں کیسا بخل۔ اس سے آپ کا کیا جاتا ہے؟
فیس بک پر نظر پڑی، وسی بابا نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے۔"آپ کو پیغمبر ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔ جس کا نام لیتے آپ اٹھا کرتے تھے"۔ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ رویوں میں بس اتنی سی تہذیب سماج کو نخلستان بنا سکتی ہے۔ ورنہ اس ریگزار میں ہم سب جھلس جائیں گے۔ تعزیت کے آداب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ کلمہ خیر صرف اسی کے لیے کہنا ہے جس سے آپ کو کبھی اختلاف نہ رہا ہو۔ انسانی معاشروں میں ایسا اتفاق رائے تو ممکن ہی نہیں۔ ایسے رویوں پر اصرار کا اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ معاشروں سے خیر ہی اٹھ جائے۔
خادم حسین رضوی اپنے اللہ کے حضور پہنچ چکے اور ہم ان کے لیے دعا گو ہیں۔