Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Islamabad Mein Darakhton Ki China Cutting, Wazir e Azam Kahan Hain?

Islamabad Mein Darakhton Ki China Cutting, Wazir e Azam Kahan Hain?

اسلام آباد میں درختوں کی چائنہ کٹنگ، وزیر اعظم کہاں ہیں؟

عمران خان ماحول کو بہتر کرنے کے لیے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ذریعے ملک بھر میں درخت لگانے کی مہم پر ہیں اور ان کے گھر اور دفتر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر۔ انقرہ پارک میں انتظامیہ کی سرپرستی میں قیمتی، نایاب اور قدیم درختوں کی چائنہ کٹنگ شروع ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کیا عمران خان کو اس واردات کا علم ہے؟ سی ڈی اے اور وزارت ماحولیات کہاں ہیں؟ کیا ان کے فرائض صرف ٹوئٹر پر کمالات دکھانے تک محدود ہیں اور زمین پر جو مرضی ہوتا رہے ان کی بلا سے؟ یہ سب ادارے اس واردات سے بے خبر ہیں یا شریک جرم ہیں؟

انقرہ پارک کے شروع میں ایک الگ تھلگ سے گوشے میں پلکن کے درختوں کا ایک جھنڈ ہے۔ گھنے، سایہ دار اور دور دور تک پھیلے ہوئے ان درختوں کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ گذشتہ موسم گرما میں، اسی جھنڈ کے ایک درخت کی تصویر میں نے سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی کہ اگر آپ سمجھ رہے ہیں یہ پانچ چھ درخت ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک ہی درخت ہے جس کی جڑ سے پانچ پانچ سات سات تنے نکلے ہوئے ہیں۔ ہر تنا ڈیڑھ دو فٹ چوڑا ہے۔ یوں گویا ایک درخت کے تنے کا گھیرائو پانچ سے چھ فٹ تک جا پہنچتا ہے۔ کئی دوستوں نے حیرت کا اظہار کیا اور کچھ نے باقاعدہ جا کر تسلی کی یہ ایک ہی درخت تھا یا چار پانچ درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔

جون کی گرم دوپہر میں ان کی چھائوں میں ٹھنڈک اور مٹھاس ہوتی ہے۔ پچھلے انالے میں، کرونا سے زندگی تھم چکی تھی تو کتنی ہی دوپہریں میں نے اس جھنڈ کی چھائوں میں گزاریں۔ اب کی بار ایک آرام دہ کرسی کا آرڈر دے رکھا تھا کہ جون کی دوپہریں پلکن کے ان درختوں کی چھائوں میں گزارنی ہیں۔ آج وہاں سے گزرا تو ایک عجیب سی ویرانی کا احساس ہوا۔ درخت تو موجود تھے لیکن وہ پہلے والی بات نہیں تھی۔ چھتری جیسی چھائوں نہیں تھی، پرندوں کا شور نہیں تھا۔ سمجھ نہ آئی کہ مسئلہ کیا ہے اور اسی شش و پنج میں، میں جھیل پر چلا گیا۔ جھیل پر بیٹھا بھی میں یہی سوچتا رہا کہ درختوں کو ہو کیا گیا۔ یہ تو اتنے گھنے درخت تھے ان کا حلیہ کیسے بگڑ گیا۔ چنانچہ جھیل سے اٹھا تو میں پھر اسی جھنڈ کی طرف چلا آیا۔

سارے درخت اپنی جگہ موجود تھے لیکن ایسا لگ رہا تھے آدھے درخت غائب ہو چکے۔ ایک مالی پھر رہا تھا اس سے پوچھا کہ کیا درخت کاٹے گئے ہیں تو اس نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ گن کر دیکھ لو پورے درخت موجود ہیں۔ مجھے لگا کہ شاید یہ میرا وہم ہو اور بہار کے موسم کے وسط تک شاید درختوں پر پرانا جوبن لوٹ آئے۔ میں پلکن کے ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اچانک میری نگاہ سامنے کھڑے درخت کے تنے پر پڑی اور حسیات میں آندھی چلنے لگی۔ ایک درخت، پھر دوسرا درخت، پھر تیسرا درخت۔۔۔۔ میں نے ایک ایک درخت کوجا کر دیکھا سب پر قیامت بیت چکی تھی۔ کہنے کو سارے درخت موجود تھے لیکن آدھا جھنڈ کاٹا جا چکا تھا۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا کہ ان درختوں کی بنیاد سے ہی چھ چھ سات سات تنے نکلے ہوئے ہیں اور ہر تنا ڈیڑھ دو فٹ چوڑا ہے تو اب ظلم یہ کیا گیا کہ ہر درخت کے چار چار پانچ پانچ تنے کاٹ دیے گئے۔ کچھ تنوں کو کاٹ کر اوپر چونا مار دیا گیا تا کہ پتا نہ چلے کیا واردات ہوئی ہے۔ کچھ جگہوں پر ابھی چونا نہیں لگایا گیا، شائد ایک آدھ دن میں لگ جائے۔ ایک عام درخت کا تنا یہی ایک سے ڈیڑھ فٹ ہوتا ہے تو اگر قدیم اور گھنے درختوں میں سے ڈیڑھ دو فٹ کے تیس چالیس تنے کاٹ لیے جائیں تو سمجھیں کہ تیس چالیس درخت کاٹ دیے گئے۔

وزیر اعظم ہائوس یہاں سے بمشکل چار کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ درختوں سے دس فٹ کے فاصلے پر سرکاری دفاتر ہیں۔ پچاس فٹ کے فاصلے پر جھیل کا بیرئر ہیں جہاں گارڈز موجود ہیں۔ پارک کے اندر ہر وقت عملہ موجود ہوتا ہے۔ پھر درختوں کی یہ چائنہ کٹنگ کیسے ہو گئی؟ سوشل میڈیا پر تماشا لگا کر داد وصول کرنے والے تمام محکموں میں سے کسی کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ پہلے اوپر جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ ساری جھنگی اجاڑ دی گئی۔ پہلے جھیل کے ساتھ ساتھ جنگل ہوتا تھا اور دوپہروں میں فاختہ بولتی تھی۔ اب اکا دکا کوئی درخت نظر آتا ہے۔ ایسے اہتمام سے درخت کاٹ دیے گئے ہیں کہ احساس ہی نہیں ہوا اور اب اچانک پتا چل رہا ہے کہ جنگل ملیا میٹ ہو چکا۔

انقرہ پارک کے ساٹھ سے ستر بڑے درخت پہلے ہی راول چوک کے توسیعی منصوبے کی نذر ہو گئے ہیں۔ جنگلی توت کے جن درختوں کو کاٹا جانا چاہیے اور جن سے پولن الرجی پھیل رہی ہے اور ان دنوں پولن کے مریض بھی کرونا کے مریض قرار دیے جا رہے ہیں اور خوف بڑھتا جا رہا ہے ان درختوں کو تو قومی اثاثے کی طرح بچا کر رکھا جا رہا ہے۔ لیکن جو ماحول دوست اور مقامی درخت ہیں ان سے یوں بے رحمی کا سلوک کیا جا رہا ہے۔

عمران خان کے چند اچھے اقدامات میں سے ایک یہ ہے وہ درختوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ لیکن جو کچھ انقرہ پارک میں ہوا ہے یہ گویا خود ان کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ پارک کی تزئین و آرائش یا درختوں کی کانٹ چھانٹ اور تراش خراش کی کاطر کسی حد تک درختوں کی ٹینیوں اور شاخوں کی کتائی ہو جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں دو دو فٹ موٹے تنے کاٹ کر پھینک دیا ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ ایک شاخ تراشنے کی گنجائش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر عملہ اپنے مفادات کی خاطر تنوں پر ہی آری چلانے لگے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو ایک تکلیف دہ عمل ہے جس پر ہم بے بس شہری آواز ہی اٹھا سکتے ہیں۔

Check Also

Khwab Sarab Aur Yoosa Ka Fan

By Imtiaz Ahmad