اسلام آباد کی ہائوسنگ سوسائیٹیاں ، بے بس عوام اور لاتعلق حکومت
اسلام آباد پھیل رہا ہے۔ ایک دارالحکومت نے پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ پھیلائو اپنے ساتھ بہت سارے چیلنجز لا رہا ہے۔ نئی نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ مرضی کے ضابطے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام بے بس ہیں اور حکومت ایک طرف لاتعلق بیٹھی دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہے۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کیا دارالحکومت ایسے آباد ہوتے ہیں؟
نیو ایئر پورٹ کے اطراف ہائوسنگ کالونیوں کا ایک جہاں آباد ہو چکا ہے۔ کچھ نجی ہیں اور کچھ سرکاری۔ سارا شہر ان کے بینرز اور ہورڈنگز سے بھرا پڑا ہے۔ ایک سوسائٹی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ عین موٹر وے کے اوپر تھی۔ اتفاق سے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئر مین دوست تھے انہیں فون کیا کہ اس سوسائٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ جواب ملا: اس کی قانونی حیثیت مشکوک ہے، زمین کلیئر نہیں، این او سی ملا نہیں، اس میں پلاٹ لینے سے اجتناب کیجیے۔ میں نے ان سے عرض کی کہ اگر یہ جائز نہیں، قانونی نہیں، مشکوک ہے، این او سی نہیں ملا تو آپ نے اسے سرعام پلاٹوں کی خریدو فروخت کی اجازت کیسے دے رکھی ہے؟ جواب ملا: ہم بے بس ہیں۔ ان کو روکنے کا ہمارے پاس کوئی قانونی اختیار نہیں۔
اگلے روز ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب تشریف لائے۔ ائر پورٹ کے پاس ایک سرکاری سوسائٹی میں انہوں نے سرمایہ کاری کی۔ پلاٹ کی تمام قسطیں ادا کرنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ پلاٹ موجود نہیں کیونکہ فائلیں زیادہ بک گئی ہیں اور جگہ کم ہے۔ ایف آئی اے اور پولیس سے لے کر نیب ہر جگہ انہوں نے درخواست دی لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ اب وہ ہائی کورٹ جانا چاہتے تھے۔ یعنی پہلے پلاٹ کی قسطیں ادا کیجیے۔ پھر وکیلوں کی فیس دیجیے اور دھکے کھائیے۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری واردات میں حکومت کہاں ہے؟
لوگ باہر سے آتے ہیں۔ دیکھتے ہیں سوسائٹی بن رہی ہے۔ سوسائٹی بھی سرکاری ہے۔ اشتہارات سے تمام اخبارات بھرے ہیں۔ دارالحکومت کی سڑکوں پر ہورڈنگز لگے ہیں۔ وہ پلاٹ لے لیتے ہیں۔ گھر بن جاتا ہے۔ حکومت اپنے سارے ٹیکسز وصول فرما لیتی ہے۔ فیس لے کر بجلی اور رشوت لے کر گیس بھی فراہم کر دی جاتی ہے۔ دس سال بعد سی ڈی اے آجاتا ہے کہ جناب عزت مآب بھائی جان آپ کا گھر ناجائز ہے کیونکہ یہ ناجائز سوسائٹی میں بنا ہے اس لیے اسے گرانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سی ڈی اے اس وقت کہاں ہوتا ہے جب یہ سوسائٹیاں بن رہی ہوتی ہیں؟
کیا عوام کا اتنا بھی حق نہیں کہ سی ڈی اے ناجائز سوسائٹیوں کو بننے سے نہیں روکنا چاہتا یا نہیں روک سکتا تو لوگوں کی آگہی کے لیے ایک پورٹل ہی بنا دے کہ فلاں سوسائٹی غیر قانونی ہے اور اس میں کوئی مقامی یا غیر مقامی اہم یا غیر اہم شخصیت کسی بھی شکل میں ملوث نہ ہو؟ کیا ضروری ہے کہ سی ڈی اے اس وقت بیدار ہو جب سوسائٹی آباد ہو چکی ہو، ہزاروں لوگ جمع پونجی خرچ کر کے اس میں گھر بنا چکے ہوں۔ جناب وزیر اعظم کے عزائم یہ ہیں کہ آدھا اسلام آباد گرا دیا جائے۔ جس میں درجن بھر سرکاری سوسائٹیاں بھی ہیں جو لوگوں نے اپنی جائز ملکیت پر بنائیں اور عوام نے خرید کر جہاں گھر بنائے۔ زون فور کی حرمت کا تماشا اتنا اہم کیسے ہو گیا کہ ڈیڑھ لاکھ گھر گرا دیے جائیں؟ لاکھوں لوگوں کو برباد کرنے سے بہتر ہے زون فور کے قانون کو چولہے میں ڈالیں اور جیسے عمران خان کا گھر ریگولیٹ کیا گیا ایسے ہی پورا زون فور ریگولیٹ کریں۔
اس کے بعد توجہ طلب معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ اب آگے کیا ہو رہا ہے؟ موٹر وے کے اطراف جو نئی سوسائٹیاں بن رہی ہیں کیا یہ قانونی ہیں؟ کیا کوئی ایسا سرکاری انتظام موجود ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہاں پلاٹ خریدنا ہے اور کہاں نہیں؟ کیا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود ہے کہ ہر سوسائٹی اتنی ہی فائلیں بیچ سکے، جتنے اس کے پاس پلاٹ ہوں۔ یہاں سرکاری سوسائٹیوں نے گنجائش سے زیادہ فائلین بیچ دیں اور انہیں بعد میں سزائیں ہوئیں۔ لیکن جن کا نقصان ہو گیا اس کا ازالہ کیا ہے؟ جس کی جمع پونجی لٹ گئی وہ کہاں جائے؟
ریئل اسٹیٹ کا کاروبار پھیل رہا ہے، عوام لٹ رہے ہیں اور حکومت بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔ کوئی قانون سازی تو کیجیے۔ جب تک زمین پر پلاٹ موجود نہیں، فائلیں کس بات کی بیچی جاتی ہیں؟ جب این او سی نہیں تو سوسائٹیاں کیسے بن رہی ہیں؟ کوئی اصول کوئی قانون تو بنائیے۔ چار سال قسطیں ادا کر کے کسی کو پلاٹ نہ مل سکا تو وہ کہاں جائے گا؟ پلاٹ مل جائے اور وہ گھر بنا لے تو پانچ سال سی ڈی اے کا ٹرک دندناتا ہوا اسے گرانے آ جائے تو وہ فیملی کہاں جائے گی؟ کوئی قانون، دادرسی کو کوئی نظام، کوئی خصوصی ٹربیونل جو ایسے معاملات کا جلد از جلد فیصلہ کر سے؟ کچھ تو کیجیے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک سفید پوش آدمی چار سال قسطیں ادا کرے اور پھر اسے معلوم ہو پلاٹ موجود ہی نہیں تو کیا وہ غریب آدمی اگلے دس بیس سال قانونی جنگ لڑنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟
حکومتوں کا آخر کام کیا ہے؟ صرف یہ کہ دس بیس سال لوگوں کے گھر گرانے پہنچ جانا یا لوگوں کو کسی فراڈ سے بچانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں ہے؟ اسلام آباد میں سب پردیسی ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں زون ون کیا ہے اور زون فور کیا ہے اور فائیو کیا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں سوسائٹی بن رہی ہے علی الاعلان بن رہی ہے، سب کے سامنے بن رہی ہے، اشتہارات سے اخبارات اور پورا شہر بھرا پڑا ہے وہ پلاٹ لے لیتے ہیں۔ بعد میں ان کے ساتھ فراڈ ہوجائے تو وہ کیا کریں؟ حکومت نے کیا یہ عزم کر رکھا ہے کہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہوتا رہے اس کی جانے بلا؟
تمام نئی سوسائٹیاں راولپنڈی میں بن رہی ہیں۔ این او سی بھی آر ڈی سے لیا جاتا ہے لیکن دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ سبھی اپنے ساتھ اسلام آباد لکھ رہی ہیں اور جعلی سیکٹر نمبر الاٹ کیے بیٹھی ہیں۔ کیا میں بھی اپنے گائوں کا نام F 20 رکھ لوں تو وہ اسلام آباد کا سیکٹر تصور ہو گا؟ کیا لازم ہے کہ حکومت نے سونامی بن کر ہی دکھانا ہے، کیا وہ ابر رحمت نہیں بن سکتی؟