عمران خان کو عدم توازن سے نکلنا ہوگا
سیاست کی دھوپ چھائوں ساون کی بارش کی طرح ہوتی ہے، ابھی ہے، ابھی نہیں ہے، یہاں ہے، وہاں نہیں ہے۔ موسم سازگار ہو یا ناسازگار، سیاست ہر دد صورتوں میں صبر، حکمت، بصیرت اور دانائی کا نام ہے۔ عمران خان نہ سازگار موسموں میں اپنی افتاد طبع کو تھام سکے نہ ہی ناسازگار موسم میں یہ بھاری پتھر اٹھا پائے۔ جب موسم مہربان تھے اور تحریک انصاف کا دسمبر گرم ہوتا تھا اور جون میں برفیں پڑتی تھیں تو ان کا جنون پریشان کن ہو چکا تھا اور جب موسم نے تھوڑی کروٹ بدلی ہے تو ان کی برہمی کا عالم بھی وہی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے نفسیاتی عدم توازن کہا جائے گا۔ تحریک انصاف نے اگر اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنا ہے تو اسے اس نفسیاتی عدم توازن سے باہر نکلنا ہوگا۔
یہ رویہ تحریک انصاف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اسے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست ایک ہنڈولا ہے، آج اوپر تو کل نیچے، یہاں کوئی سا بھی موسم ہمیشہ نہیں رہتا۔ ہر خزاں کے ساتھ بہار ہے اور ہر بہار کے ساتھ خزاں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ افتاد طبع کسی بھی موسم میں بے قابو نہیں ہونی چاہیے۔
افتاد طبع اور نفسیاتی عدم توازن کے باب میں چند پہلو توجہ طلب ہیں۔ ایک سیاسی قوت کے طور پر تحریک انصاف کو ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار میں آنا اور اقتدار سے جانا سیاست کے کھیل کی دو اننگز ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ میچ میں صرف بیٹنگ کرتے رہیں اور اننگز تبدیل ہونے پر آپ امپائر سمیت سب پر میچ فکسنگ کے الزامات لگا دیں۔ امپائر کی انگلی کے آپ نے سہرے کہنے ہیں تو دونوں اننگز میں کہیے، نہیں کہنے تو کسی بھی اننگز میں نہ کہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک اننگز میں آپ امپائر کی انگلی کے صدقے واری جائیں اور دوسری میں آپ خفا ہو جائیں اور خفگی بھی کسی اصول کی بجائے اس بات پر ہو کہ امپائر میرے ساتھ ہو کر کیوں نہیں کھیلتا؟
سمجھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرے کے حوالے سے جوبیانیہ فروغ دیا جا رہا ہے یہ نہ ریاست کے لیے فائدہ مند ہے نہ خود تحریک انصاف کے لیے۔ سیکیورٹی کی صورت حال ملک میں مخدوش ہے اور عمران خان صاحب کی بہترین سیکیورٹی ہونی چاہیے۔ لیکن اگر اس بیانیے کو فروغ دیا جانے لگے کہ عمران خان کو ملک کے اداروں سے ہی جان کو خطرہ ہے اور کوئی ادارہ عمران کو گرفتار کرنا چاہتاہے تو شور مچ جاتا ہے کہ ہم گرفتاری نہیں دیں گے کیونکہ یہ عمران کو مار دیں گے تو یہ نفسیاتی عدم توازن ہے۔ آپ حکومتیں کرتے ہیں اور آپ پر سوالات اٹھتے ہیں تو آپ کو جواب دینا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ دوسرے گرفتار ہوں تو یہ قانون کی حکمرانی سمجھا جائے اور آپ گرفتار ہوں تو اسے قتل کی سازش سمجھ کر ملک میں آگ لگا دی جائے۔
نو مئی کے واقعات اسی نفسیاتی عدم توازن کے زیر اثر مرتب کیے گئے بیانیے کا منطقی نتیجہ تھے۔ ماحول یہ بنا دیا گیا تھا کہ عمران ہماری ریڈ لائن ہیں، انہیں گرفتار کرنے کی مزاحمت کی جائے گی کیوں کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو مار دیا جائے گا۔ یو ٹیوبرز نے اسی نفسیاتی عدم توازن کے تحت کہانیاں بنا لیں کہ فلاں عدالت میں پیشی پر حکومت نے شوٹر بٹھا رکھے تھے کہ عمران کو گولی مار دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ نام لے لے کر مہم برپا کی گئی اور ثبوت مانگے گئے تو وہی روایتی آئیں بائیں شائیں۔ اس نفسیاتی عدم توازن نے گویا کارکنان کو ریاست ہی کے مقابل کھڑا کر دیا۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ رویہ تبدیل نہ ہوا تو مزید خوفناک مظاہر سامنے آ سکتے ہیں۔
یہ رویہ بھی متوازن نہیں کہ قافلہ حق صرف ہم ہیں اور ہمارے علاوہ سب خائن، چور، اچکے، بے ایمان ہیں اور یہ ملک لوٹ کر کھا گئے۔ زبان حال و قول سے یہ دعوی کرنا بھی نفسیاتی عدم توازن کا مظہر ہے کہ صرف ہم اور ہمارے وابستگان دیانت کا تاج محل ہیں باقی سب چور ہیں۔ ان باقی سب چورں میں سے البتہ اگر کوئی ہمارے ساتھ آ جاتا ہے تو وہ بھی دودھ کا دھلا قرار پائے گا۔ جو رجال کار تحریک انصاف نے متعارف کرائے اور جیسا طرز حکومت اس کے دور میں دیکھنے کو ملا اس کے بعد ایسی کسی پاکبازی کے دعوے کی ویسے ہی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے پوسٹ ٹروتھ کے تخلیق کردہ اس سراب کا اسیر رہنے کی بجائے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہے کہ خوبی اور خامی ہر سیاسی گروہ میں ہو سکتی ہے، نہ کوئی مکمل خیر ہے نہ کوئی مکمل شر۔ کلٹ اور رومان کی بجائے ایشوز کی سیاست ہونی چاہیے اور اس کا زاد راہ جنون نہیں اعتدال ہوناچاہیے۔
موسم سازگار ہو یا ناسازگار، نفسیاتی عدم توازن ہردو صورتوں میں تباہ کن ہوتا ہے۔ نفسیاتی عدم توازن سازگار موسموں میں صاحبان منصب کو قوم کا باپ، قرار دیتا ہے اور یہ عدم توازن ناسازگار موسموں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے بے ہودہ الزامات لگانا شروع کر دیتا ہے۔
نفسیاتی عدم توازن اقتدار کے دنوں میں اپنے سوا کسی کا وجود تسلیم نہیں کرتا اور اقتدار سے محروم ہو جائے تو اسے گلی کا راہ گیر بھی اپنے خلاف سازش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ساون کی بارش ہو جائے تو جون کی لو چلنے لگے، سارے موسم اسے سازشی لگنے لگتے ہیں۔ اس کے خیال میں مئی کے بعد جون بھی اس لیے آتا ہے تا کہ دونوں مہینے مل کر صاحب کے خلاف سازشیں تیار سکیں۔
نفسیاتی عدم توازن پر اچھا موسم ہو تو ایک دورہ امریکہ پر وہ اتنا سرشار ہو جاتا ہے جیسے ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہو اور اقتدار کی بہاریں نہ رہیں تو وہ مچل جاتا ہے کہ اس کے خلاف تو امریکہ نے سازش کی ہے۔
جس طرح آپ کرکٹ کا میچ صرف فاسٹ بائولرز سے نہیں جیت سکتے اور جس طرح فاسٹ بائولر بھی سارے اوورز میں صرف بائونسر نہیں پھینک سکتا اسی طرح سیاست بھی صرف جارحانہ انداز سے نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہمہ وقت تمام سیاسی حریفوں، اداروں اور سماج کی کپٹی کا نشانہ لے کر بائونسر پھینکتے رہنے کا نام سیاست ہے۔
نہ دوسرے ضرورت سے زیادہ گناہ گار ہیں نہ آپ ضرورت سے زیادہ متقی اور پارسا۔ سیاست کرنا ہے تو اہل سیاست سے بات کرنا سیکھ لیجیے۔ کوئی اصول اپنانا ہے تو مکمل طور پر اپنائیے۔ اس نفسیاتی عدم توازن نے ہی اس جماعت کو آج یہ دن دکھائے ہیں کہ وہ بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کی قیادت کسی سیاسی مکالمے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ جب بھی کسی سیاسی قوت سے مکالمہ ہوتا ہے دوسرے درجے کی قیادت کو بھیجا جاتا ہے۔ نہ عمران کسی سیاسی رہنما سے بات کرنے کے روادار ہیں نہ کوئی اور سیاسی رہنما ان سے بات کرنے کا روادار ہے۔