حکومت کیا شام کا اخبار ہوتی ہے؟
جناب وزیر اعظم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ناجائز رقوم ہتھیانے والے بیوروکریٹس کے نام " پبلک" کر دینے کا حکم دیا اور نونہالان انقلاب نے مرحبا، سلامت اور آفرین کے نغموں سے ماحول کو غزل بنا دیا۔ مرزا غالب نے کہا تھا : کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے۔ میرے جیسا عامی بیٹھا سوچ رہا ہے حکومت کیا شام کا اخبار ہوتی ہے اور وزیر اعظم اس کے سینئر نیوز ایڈیٹر، جن کی ترک تازی کا کمال صرف یہ ہے کہ ہر خبر پورے ہیجان کے ساتھ عوام تک پہنچ جائے؟ رشک ِ مسیحا سے کوئی پوچھے، نام " پبلک"کرنے سے کیا ہو گا؟ ہمت ہے تو ان کے خلاف مقدمہ قائم کیجیے، ملازمت سے برطرف کر کے گرفتار کیجیے اور زنداں میں ڈالیے، ان کی جائیداد ضبط کیجیے اور لوٹی رقم وصول کیجیے۔ نام " پبلک" کرنے کی کوہ کنی کا تکلف آپ مت کیجیے یہ فریضہ میڈیا خود انجام دے لے گا۔ آپ وہ کیجیے جو آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ استاد ذوق کو ان کا محبوب اپنی زلفوں سے مشکیں کس کر مارتا تھا، ہماری قسمت دیکھیے ہمارے محبوب نے ہماری پشت اقوال زریں کے کو ڑوں سے سبز اور سرخ کر رکھی ہے۔
حکومت نہیں، اک غنچہ حیرت ہے جو ہمارے سامنے کھلا ہے۔ خلق خدا چاہے الامان پکارتی رہے ان کی بلا سے، ترجیح بس یہ ہے کہ اقوال زریں جب سنائے جائیں تو سوشل میڈیا پر مبارک سلامت اور مرحبا کا شور برپا ہو جائے، واہ صاحب واہ، پہلی مرتبہ صاحب پہلی مرتبہ، غضب صاحب غضب، قیامت حضرت قیامت، کمال قبلہ کمال۔ اقوال زریں کی حرمت اور اعتبار کا معیار اب یہ نہیں کہ خلق خدا اس کی شرح کیسے بیان کر رہی ہے، معیار یہ ہے وہ کتنے گھنٹے ٹویٹر پر " ٹاپ ٹرینڈ " بنتا ہے۔ معلوم نہیں یہ افتاد طبع کا آزار ہے یا " فارن کوالیفائیڈ" مشیران کرم کا اعجاز لیکن یاروں نے طے کر لیا ہے کہ نیا پاکستان اب سوشل میڈیا پر ہی بنے گا۔ روز نیا شگوفہ، روز نیا ٹرک، روز نئی بتی، شاید انہیں خوب معلوم ہے اس قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ آج کی داد ان سے نقد وصول فرما لیجیے، کل نیا ٹرک ہو گا اور نئی بتی ہو گی۔ نیا مشاعرہ ہو گا، نیا مطلع ہو گا، نئی داد ملے گی۔ نیا " ٹرینڈ " چلے گا۔
عزائم تو یہ ہیں کہ ہم پانچ سال کی مدت کو عدت سمجھ کر پورا کریں گے اور فریضے کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھیں گے لیکن عالم یہ ہے کہ حکومت "یومیہ " کے حساب سے چلائی جا رہی ہے۔ کوئی ویژن، کوئی منصوبہ، کوئی پلاننگ نہیں جس کی تہمت اس حکومت کے سر دھری جا سکے۔ ہر روز ایک نیا شگوفہ، ایک تازہ پھلجھڑی کہ آج کا دن تو گزرے کل کی کل دیکھیں گے۔ سوموار کو چھوڑیں گے نہیں، منگل کو لٹکا دیں گے، بدھ کو الٹا لٹکا دیں گے، جمعرات کو نوکریاں دے دیں گے، جمعے کو کشمیر آزاد کرا لیں گے، ہفتے کو ایران امریکہ کی صلح کروا دیں گے اور اتوار کو تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کر لیں گے۔ یہ وہ ہفت روزہ پلان ہے جس کی بنیاد پر ملک کی قسمت بدلنے کے دعوے فرمائے جا رہے ہیں۔
کتنے ارمانوں سے لوگ انہیں لائے تھے۔ دروغ بر گردن راوی پڑھے لکھے لوگوں نے انہیں ووٹ دیے تھے کہ سیاست کے روایتی چہروں اور روایتی کردار سے بیزار ہو چکے تھے۔ اب عالم یہ ہے خوش گمانیوں کا سایہ تک بھاگ چکا ہے۔ خوش گمان اب دھوپ تلے کھڑے ہیں اور حیران ہیں کہ روئیں یا ہنسیں۔ سیدنا علی ؓ نے فرمایا تھا : اقتدار آدمی کو بدلتا نہیں بے نقاب کرتا ہے۔ اقتدار کی اولین سہہ ماہی گزری تو لوگوں کو گمان ہوا یہ تو پہلے جیسوں ہی نکلے، ستم کے مارے اب بیٹھے سوچتے ہیں : اللہ بخشے کفن چور کا باپ تو بہت اچھا آدمی تھا۔ ابھی تو ڈیڑھ سال گزرا ہے، چند سال مزید اسی طرح بیت گئے تو ڈریے اس وقت سے جب لوگ ٹرکوں کے پیچھے عالی جاہ نواز شریف اور اعلی حضرت آصف زرداری کی تصویر بنوا کر لکھ رکھیں : تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔ نواز شریف کو تو شعرو ادب کا ذوق نہیں کیا خبر جناب زرداری تالیف قلب کے لیے انہیں واٹس ایپ پر شیخ ابرہیم ذوق کے اشعار بھیجتے ہوں :
سنا کرتے تھے شہرہ ذوق جن کی پارسائی کا
وہ سب یارِ خرابات اپنے نکلے، ہم نشیں نکلے
عمران خان لمحہ لمحہ ضائع ہو رہے ہیں، برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔ اپنے ہی وزیروں نے انہیں سینگوں پر لے رکھا ہے اورروایت یہ ہے اس چاند ماری پر انہیں داد دی جاتی ہے۔ جارحانہ اسلوب حزب اختلاف کے زمانوں میں تو گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن جو رویہ ان وزرائے کرام نے اختیار کر رکھا ہے، کسی ذوق سلیم کے حامل معقول انسان کے لیے ممکن نہیں اسے گوارا کر سکے۔ ویسے تو اس کابینہ میں ہر دوسرا جنگجو زبان بکف ہے لیکن جو کام کل فیصل واڈا صاحب نے کیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے حکومت اپنے اخلاقی وجود کے باب میں آخری درجے میں بے نیاز ہو چکی ہے۔ حکمت، تدبر، شرافت، اخلاقیات، تہذیب، مروت، وضع داری کسی بھی زاویے سے اس رویے کا دفاع ممکن نہیں۔ ایسے وزراء کے ہوتے ہوئے کیا عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت ہے؟
یہ حادثہ مگر ایک دن میں نہیں ہوا۔ معلوم یہ ہوتا ہے یہ ایک پالیسی تھی جس کے آزار سے اب سماج سہما بیٹھا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی عزت کے بارے میں جو جتنا بے نیاز تھا وہ اتنا ہی معتبر ہوا۔ اپنی زبان سے اپنی اور دوسروں کی دستار آلودہ کرنے میں جسے جتنی مہارت تھی اسے اتنا ہی نوازا گیا۔ کابینہ کے فاضل اراکین کو گفتگو کرتے دیکھیں تو احساس زیاں کا درد وجود میں اتر جاتا ہے۔ دکھ اور صدمے کی کیفیت میں آدمی سوچتا ہے معاملہ کیا ہے؟ قافلہ انقلاب میں کوئی نجیب لوگوں کا قحط ہے یا نگاہ یار میں جچتے ہی وہی ہے جو اپنی اقدار کے جملہ حوالوں سے یکسر بے نیاز ہو جانے کا ہنر رکھتا ہو۔
دعوے، اقوال زریں، بھاشن، خطبے، شعلہ بیانیاں، انکشافات، سوال یہ ہے کارکردگی کہاں ہے؟ یہ حکومت ہے یا شام کا اخبار؟ جو جی میں آئے چھاپ دو۔