Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Hukumat Aur Opposition Mein Jhagra Kya Hai?

Hukumat Aur Opposition Mein Jhagra Kya Hai?

حکومت اور اپوزیشن میں جھگڑا کیا ہے؟

حکومت اور اپوزیشن میں جھگڑا کیا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب حکومتی وزراء کی زبان پر ہے اور دوسرا جواب حزب اختلاف کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔ ہر دو کے جواب کادلیل کی بنیاد پرجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے دونوں ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔

حکومت کا دعوی ہے ساری اپوزیشن کرپٹ، چور اور بے ایمان ہے جو اپنی کرپشن چھپانے کے لیے این آر او چاہتی ہے۔ اب چونکہ جناب وزیر اعظم نے طے فرما لیا ہے کسی کو این آر او نہیں دینا چنانچہ یہ سب چور ایک نیک اور دیانتدار حکومت کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ یہ موقف دلیل کی کسوٹی پر رکھا جائے تو ایک کمزور اور غیر منطقی موقف ہے۔ جناب عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے اخلاقی برتری کا پرچم، عرصہ ہوا، ان کے ہاتھ سے گر چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اب کسی بھی سطح پر اخلاقی برتری کا " طعنہ" نہیں دیا جا سکتا۔ جن حلیفوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے حکومت بنائی، جس طرح کے لوگ ان کی کابینہ میں تشریف فرما ہیں اور جن رجال کار کو انہوں نے قافلہ انقلاب میں شامل کر رکھا ہے اس کے بعد بھی اگر انہیں خیال ہو کہ ان کی حکومت اخلاقی طور پر دوسروں سے بہتر ہے تو یہ سادگی اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی معصومیت سے تحریک انصاف کے جذباتی کارکن کو تو آسودہ کیا جا سکتا ہے، علم اور دلیل کی دنیا میں اس موقف کا کوئی اعتبار نہیں۔

حکومت کی جارحانہ طبیعت نے احتساب کے عمل کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ احتساب کا کوڑا اس کی پشت پر برستا ہے جو حکومت کا مخالف ہے۔ حکومتی وزراء کے بیانیے نے اس موقف کو مزید طاقت دی ہے اسے کمزور نہیں کیا۔

حزب اختلاف کا معاملہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔ کہنے کو یہ پاکستان ڈیموکریٹک ہے لیکن عملا حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس ہیں جو اپنی اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ اویس نورانی سے لے کر بلاول بھٹو تک اور محمود اچکزئی سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک، یہ سب موروثی سیاست کے طفیل قیادت کے منصب تک پہنچے ہیں اس میں ان کی اہلیت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ خود مولانا فضل الرحمن صاحب کی جمہوریت پسندی پر جو سوالات مولانا شیرانی نے اٹھا دیے ہیں ان کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ مولانا شیرانی تو کہہ رہے ہیں یہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان ہے، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن نہیں۔ اس لیے اس کا اصل نام بحال کیا جائے کیونکہ ہم ایک جماعت کے کارکن ہیں، کسی فرد واحد کے مزارع یا نوکر نہیں۔ کیا مولانا فضل الرحمن کے پاس مولانا شیرانی کے اس جائز اور اصولی مطالبے کا " خاموشی" کے علاوہ کوئی جواب ہے؟

ہر ایک گروہ کے وابستگان بد مزہ ہو کر طعنہ زن ہو جاتے ہیں، ورنہ سچ یہ ہے کہ یہ نہ کرپشن کے خلاف احتساب کی لڑائی ہے نہ آئین کی سربلندی کی۔ یہ انا اور مفادات کی لڑائی ہے جس کے عنوان " سکہ رائج الوقت" کے اصول کے طور پر ہر صف نے الگ الگ چن رکھے ہیں۔ ایک کے حصے کے بیوقوفوں کا خیال ہے اس کے قائد محترم سے اختلاف کرنے والا آدمی "لفافہ" ہے اور دوسرے کا زعم پارسائی اسے یقین دلا چکا ہے قافلہ انقلاب سے اختلاف تو صرف وہی کر سکتا ہے جو " پٹواری" ہے اور جس نے اپنا ضمیر "پٹوار خانے" میں گروی رکھوا دیا ہے۔ ہر دو صف کے جنگجوئوں کا خیال ہے جو ہمارے قائد کے حصے کا بے وقوف نہیں ہے، لازم ہے کہ وہ دوسرے کے قائد کے حصے کا بے وقوف ہے۔ کوئے یار اور سوئے دار کے بیچ یاروں کو کوئی مقام راس ہی نہیں آتا۔

پھرمسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ انا اور ہیجان میں اس حکومت نے حزب اختلاف سمیت پورے سماج کو اگل دیا ہے۔ اسے اپنے اور اپنے حلیف کے سوا کسی کا وجود گوارا نہیں۔ حکومت نے اپنے ہر مخالف کی جس شدت اور اہتمام سے تذلیل کی ہے وہ ایک تکلیف دہ چیز ہے۔ اقتدار ملنے کے بعد بھی یہ حکومت کنٹینر سے اترنے کو تیار نہیں۔ ان کے لہجوں سے خوف آتا ہے۔ کوئی مسیحائی نہیں، کوئی درد دل نہیں، انہیں صرف دوسروں کی تذلیل کا فن آتا ہے اور اس میں یہ طاق ہیں۔ اس رویے نے رد عمل پیدا کیا ہے اور پی ڈی ایم اس رد عمل کی ایک انتہائی شکل ہے۔

پارلیمانی نظام بادشاہت سے مختلف ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں حزب اختلاف کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ جو کرپٹ ہیں ان کے معاملات نیب اور عدالتیں ددیکھ رہی ہیں لیکن جو پارلیمان میں ہیں وہ اسی طرح عوام کے نمائندے ہیں جیسے حکومت عوام کی نمائندہ ہے۔ حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے اور اس سے مشاورت کے راستے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ حکومت نے مگر یہ ثابت کیا ہے کہ قومی اہمیت کا معاملہ ہو یا داخلی سیاست کا، اسے اپوزیشن سے بات کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ دو سالہ دور اقتدار میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہو سکی۔

جب حزب اختلاف کو دیوار سے لگا دیاجائے، اس کا وجود ہی تسلیم نہ کیا جائے۔ اس کی مسلسل اور اہتمام سے تذلیل کی جائے تو یہ رویہ آخر کوئی کب تک برداشت کر سکتا ہے۔ ہر آدمی کو عزت نفس پیاری ہوتی ہے۔ اہل سیاست آخر کب تک اپنی تذلیل برداشت کریں۔ ہر اہم معاملے میں اپوزیشن تعاون کا کشکول لیے آمادہ تعاون رہی لیکن ہر موڑ پر اس کی توہین کی گئی۔ تحریک انصاف اخلاقی طور پر دوسروں سے بہت بہتر اور ممتاز ہوتی تو یہ رویہ بھی شاید گوارا کر لیا جاتا لیکن اپنی موجودہ ہیئت ترکیبی میں تحریک انصاف ایسا کوئی دعوی بھی نہیں کر سکتی۔ پھر حزب اختلاف کب تک گالیاں کھا کر سوچتی رہے کہ ان کے لب شیریں ہیں اس لیے بد مزہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ تذلیل اور تحقیر ہے جس نے تحریک انصاف کے خلاف پورے معاشرے میں جذبات کو فروغ دیا ہے۔ پی ڈی ایم اس کا صرف ایک مظہر ہے۔ کیا معلوم ایسے کتنے ہی مظاہر تہہ خاک کروٹ لے رہے ہوں۔

Check Also

Sifar Se Aik Tak

By Hafiz Safwan