ہمارا فہم ِ اقبال
یوم اقبال تو ہم منا چکے، سوال یہ ہے ہم اقبالؒ کی فکر سے کتنے آگاہ ہیں؟ کیا ہمیں اقبال ؒ اور اس کی فکر سے کوئی راہ و رسم ہے یا ہم برائے وزن بیت اقبال ؒ کا نام لیے جا رہے ہیں؟
اقبال کے فکری کام کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: نثر اور شاعری۔ تو پہلا سوال یہ ہوا کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اقبال کی نثر کو پڑھ رکھا ہے؟ معیشت اور مذہب سے لے کر تربیت تک اقبال کی نثر دعوت فکر دے رہی ہے۔ کیا ہمیں کچھ خبر ہے اقبال کیا کہہ گئے؟
شاعری بعد کی بات ہے۔ اقبال کی سب سے پہلی تصنیف کا تعلق نثر سے ہے۔ اس کا نام " علم الاقتصاد" ہے۔ آج ہم جس معاشی گرداب میں پھنس چکے ہیں اس میں اس کتاب کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ تو کیا وجہ ہے ہمارے علمی، صحافتی اور سیاسی بیانیے میں کہیں اس کتاب کا تذکرہ نہیں؟ ہمیں اس کے مندرجات سے اختلاف ہے یا ہمیں معلوم ہی نہیں اقبال 117 سال پہلے معیشت کی مبادیات میں کیا شاہکار تخلیق کر دیا تھا؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ" انتساب " میں اقبال ؒ نے اس کتاب کو " اپنی علمی کوششوں کا پہلا ثمر" قرار دیا تھا۔
آپ اس کتاب کا دیباچہ دیکھ لیجیے۔ اقبالؒ نے بہت بنیادی بات بڑی سادگی سے کہہ دی ہے۔ لکھتے ہیں:"انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اوراقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں ان کا حشر کیا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں مہاراجہ بڑودہ نے اپنی ایک گراں بہا تقریر میں فرمایا تھا کہ موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے"۔ اقبال کی شاعری کے باب میں ہمارا نقص فہم جو مرضی نتائج اخذکرتا پھرے، معیشت کے باب میں اقبال کی رائے وہی ہے جو " علم الاقتصاد" میں بیان کر دی گئی ہے۔
علامہ اقبال ؒ کی نثر کا دوسرا شاہکار ان کے انگریزی میں دیے گئے وہ خطبات ہیں جو The Reconstruction of Religious Thought in islam کے نام سے کتابی صورت میں موجود ہیں۔"تجدید فکریات اسلام " کے نام سے اس کا ترجمہ بھی اقبال اکادمی نے کر دیا ہے اور اس کے شروع میں ڈاکٹر وحید عشرت نے نو نکات پر مشتمل وہ اہتمام بھی بیان کر دیا ہے جو اس ترجمے میں کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ دیگر بہت ساری نزاکتوں کے ساتھ ساتھ ترجمے کی وجاہت کے پیش نظر یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ اقبال نے خود اگر یہ بات اردو میں بیان کی ہوتی تو ان کا اسلوب کیا ہوتا۔ تو ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے اور انہیں معلوم ہے اقبال ؒ کی فکری مبادیات کیا ہیں؟
یہ اقبال کے وہ خطبات ہیں جو انہوں نے مدراس ِ حید آباد اور علی گڑھ میں دیے اور انگریزی زبان میں دیے۔ اس کتاب کے دیباچے میں اقبال ؒ لکھتے ہیں:"میں نے کوشش کی ہے کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور مختلف انسانی علوم میں جدید ترین تحقیقات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی مذہبی فکر کی تشکیل نو کروں "۔ جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی، سچ تو یہ ہے اقبال ؒ اس کے لیے اجنبی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے اقبالؒ کیا ہے اور علم کی دنیا میں اس کا مقام کیا ہے۔
اقبال ؒ کے نثری ورثے کا تیسرا پہلو ان کے خطوط ہیں جو انہوں نے قائد اعظم ؒسمیت بہت سے شخصیات اور احباب کو لکھے۔ 125 خطوط انگریزی میں ہیں۔ ایک خط عربی میں ہے۔ کچھ فارسی میں بھی ہیں اور درجن بھر خطوط جرمن زبان میں لکھے گئے ہیں۔ زیادہ تر خطوط اردو میں لکھے گئے۔ اسلوب، متن اور شرح، ہر اعتبار سے یہ خطوط شاہکار ہیں۔ ان کی زبان اور اسلوب سادہ، پر اثر اور باوقار ہے۔ ابولکلام آزاد کی نثر کے برعکس اقبالؒ کے ہاں بناوٹ اور تصنع نہیں ہے۔
اقبال ؒ کے خطوط ان کی فکر کی شرح بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک عام آدمی نقص فہم کا شکار ہو جاتا ہے ان کے خطوط ان اشکالات کو دور کر دیتے ہیں۔ اقبالؒ خود کہتے ہیں کہ شاعر کے خطوط اس کے کلام پر روشنی ڈالتے ہیں اور اعلی پائے کے شعراء کے خطوط شائع کرنا ادبی اعتبار سے مفید کام ہے۔ اقبال کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے وہ دین کے باب میں جدید و قدیم کے کیسے حسین امتزاج کے قائل تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:"ہم چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کر دیں، جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو"۔
اس کے بعد اقبال کے مختلف مضامین ہیں جو اردو اور انگریزی میں شائع ہوتے رہے۔" بچوں کی تعلیم و تربیت" انتہائی اہم مقالہ ہے۔ یہ ایک زمانے میں مخزن میں شائع ہوتا رہا۔ والدین اوردرس و تدریس سے وابستہ افراد کے لیے اس کا مطالعہ لازم ہونا چاہیے۔ اردو زبان پر دو مقالات ہیں۔ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، پین اسلام ازم، شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا مرتبہ، افغانستان جدید، اسلام اور تصوف، اسلام اور علوم جدیدہ جیسے کئی اہم تحریریں ہیں جو فکر کو جلا بخشتی ہیں۔ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے یہ سب پڑھ رکھا ہے؟
فکر اقبال میں، اس کے بعد شاعری آتی ہے۔ اقبال ؒ نے اردو اور فارسی میں شاعری کی ہے لیکن ان کا زیادہ کلام فارسی میں ہے۔ قریب ستر فیصد۔ اب عالم یہ ہے کہ فارسی تو ہمیں آتی نہیں اس لیے اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، جاوید نامہ، زبور عجم جیسے مجموعے تو ہمارے لیے عملا اجنبی ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غلام محی الدین صوفی کو لکھے گئے خط میں اقبال کہتے ہیں کہ زیادہ پختہ کلام ان کا فارسی میں ہے۔ اقبال کے اردو کلام کو بھی ہم میں سے کتنوں نے پڑھ اور سمجھ رکھا ہے؟ چند اشعاریاد کر لیے گئے ہیں اور ان میں سے سیاق و سباق سے ہٹ کر مرضی کے مفاہیم نکال کر حسب ضرورت پڑھ اور لکھ لیے جاتے ہیں۔
تو جناب یہ ہے ہمارا مبلغ فہم اقبال۔ کیا یہ کوئی معمولی حادثہ ہے؟ کاش ہمیں احساس ہوتا۔