فرد کی پرائیویسی اور ریاست
ایک فرد کی پرائیویسی، کی حدود کہاں سے کہاں تک ہیں اور امور ریاست کے تقاضوں کا دائرہ کار کیا ہے؟ اہم ریاستی مناصب پر فائز افراد پر کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھناکیاریاست کا حق ہے یا اسے اس فرد کی پرائیویسی میں مداخلت تصور کیا جائے گا؟
اس سوال کا تعلق بنیادی طور پر جورسپروڈنس یعنی فلسفہ قانون سے ہے۔ قانون تو ہم نے پھر اپنا کچھ بنا لیا لیکن پاکستانی جورس پروڈنس نام کی کوئی چیز وطن عزیز میں نہیں پائی جاتی۔ قانون کے طلباء کو انگلش جورسپروڈنس اور برائے وزن بیت تھوڑا سا اسلامی جورس پروڈنس پڑھایا جاتا ہے۔ اپنا مقامی جورس پروڈنس کہاں ہے، یہ نہ کسی کو معلوم ہے نہ کسی نے غور کرنا گوارا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا سارا قانونی ڈھانچہ تضادات، ابہام اور الجھنوں کی نذر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس میں ایک الجھن وہ ہے جو ہمارا آج کا موضوع ہے کہ پرائیویسی کی حد کہاں تک ہے اور قومی مفاد کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
انگلش جورس پروڈنس میں پھر دو مسائل ہیں۔ ایک طرف وہ انگلش جورس پروڈنس ہے جو شہریت کے اصولوں پر کھڑا ہے اور جس کا تعلق شہریوں سے ہے اور دوسری طرف وہ نو آبادیاتی جورس پروڈنس ہے جو بربریت پر استوار ہے۔ اس تضاد نے ہمارے قانون کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر انگلش جورسپروڈنس انسانی آزادیوں کی بات کرتا ہے، جب کہ نو آبادیاتی جورسپروڈنس انہیں غلام تصور کرتا ہے۔ انگلش جو رسپروڈنس میں آزادی رائے دستیاب ہے لیکن نو آبادیاتی قانون میں سیڈیشن لاء ایسی کسی گستاخی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انگلش جورسپروڈنس جب فوجداری ڈھانچے میں ظہور کرتا ہے تو سکاٹ لینڈیارڈ ماڈل پر پولیس کا قیام عمل میں آتا ہے لیکن جو آبادیاتی جورسپروڈنس جب فوجداری بندو بست قائم کرتا ہے تو سکاٹ لینڈ یارڈ کی بجائے آئرش کانسٹیبلری کے سفاک ماڈل پر پولیس قائم کی جاتی ہے۔
انگلش جورسپروڈنس پڑھ کراور نو آبادیاتی جورسپروڈنس کے قوانین اختیار کرکے ہم عجیب سے تضادات اور کنفیوژن کا شکار ہوچکے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر چند قدم کے فاصلے پر جب ہمیں مقامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہمارے پاس مقامی جورس پروڈنس ہوتی ہی نہیں جو ان کو حل کرے۔ ہم انگلش جورس پروڈنس کے اقوال زریں ایک ہاتھ میں اور نوآبادیاتی جورس پروڈنس کے حقائق دوسرے ہاتھ میں رکھ کر مجموعہ لطائف بن جاتے ہیں۔
اب جب ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ ایک فرد کسی اہم عہدے پر بیٹھا ہے تو اس کی خط و کتابت، میل جول، بات چیت، فون کالز، وغیرہ پر نظر رکھنا ریاست کا حق ہے یا یہ اس کی پرائیویسی میں شمار ہوگا تو ہم اسی الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ ہم نے اپنا قانون اور اپنی جورس پروڈنس اپنے مقامی مسائل اور حقائق کی روشنی میں مرتب ہی نہیں کی اس لیے ہم غلطی ہائے مضامین بن کر رہ گئے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ صاحب منصب کے حوالے سے ایسے ایسے خوف ناک حقائق سامنے آتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے لیکن ہم اس معاملے کے صرف ایک ہی پہلو میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ کیا کسی کی آڈیو کال ٹیپ کی جانی چاہیے؟ ہم اس بات کو زیر بحث نہیں لاتے کہ اگر ایک فرد ایک انتہائی اہم عہدے پر بیٹھا ہے تو کیا ریاست کے اندر اس کے معاملات پر نظر رکھنے کا کوئی میکنزم ہونا چاہیے یا نہیں اور کیا ایسا ہونا ایک فطری سی بات ہے یا نہیں؟ کیا اہم عہدوں پر بیٹھے افراد کو پرائیویسی کے نام پر مکمل استثناء دیا جا سکتا ہے؟
ہماری الجھنوں نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا کہ انتہائی سنگین معاملات کے سامنے آنے پر بھی مزے سے کہہ دیا جاتا ہے آڈیو کیوں ٹیپ کی گئی؟ حالانکہ اس سوال کے ساتھ یہ سوال بھی بہت اہم ہونا چاہیے کہ جو ٹیپ ہوگئی کیا وہ درست ہے یا غلط؟ کیا واقعاتی شہادتوں سے یہ اس ٹیپ کی صحت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
پرائیویسی کی حدود کا تعین ہونا لازم ہے۔ ایک وہ معاملات ہوتے ہیں جن کا تعلق گھر کی چار دیواری کے اندر سے ہوتا ہے۔ ان میں تو پرائیویسی کی سمجھ آتی ہے۔ چار دیواری کا احترام لازم ہے۔ لیکن فون کال پر اگر کوئی صاحب منصب کسی ایسے معاملے میں ملوث پایا جاتا ہے یا اس کے قریبی رشتہ دار کسی ایسے معاملے میں ملوث پائے جاتے ہیں جو اس صاحب منصب کے فرائض منصبی پر اثر انداز ہو رہا ہو تو سوال یہ ہے ایسے معاملے میں پھر کیا کرنا چاہیے؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات پر نگرانی کا کوئی نظام ہونا چاہیے یا نہیں؟ کیا ریاست کو یہ جاننے کا حق ہے کہ نہیں کہ ایسے افراد کس سے بات کرتے ہیں اور کیا بات کرتے ہیں اور کن امور میں ملوث ہیں؟
نیشن سٹیٹ کا بنیادی تصور ہی یہی ہے کہ ایک فرد کچھ حقوق کی فراہمی کے بدلے میں ریاست کے سامنے اپنے کچھ حقوق سرنڈر کر دیتا ہے۔ ایسے میں اگر ریاست سے کہا جائے کہ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے صاحبان منصب کب، کہاں کیا کر رہے ہیں اور کس سے کب کیا اور کیسی گفتگو کر رہے ہیں اور یہ سب ان کے فرائض منصبی پر کیسے اور کتنا اثر انداز ہو رہا ہے تو کیا کوئی ریاست اس کی متحمل ہو سکتی ہے؟
کیا ملک کے دفاعی نظام میں، ممکن ہے کہ اعلی افسران پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ سب پر ہوتا ہے۔ اے کیو خان کتنے قابل احترام تھے، کیا ان پر اور ان کے رفقاء پر نگرانی کا انتظام نہیں ہوتا ہوگا۔ دفاع کی طرح ہی انصاف کی فراہمی بھی ایک مقدس معاملہ ہے۔ اہم عہدوں پر فائز بیوروکریٹ بھی قومی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ریاست کے مالیاتی امور کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، کیا ان پر ایک خاص دائرہ کار میں نظر رکھی جانی چاہیے یا اسے ان کی پرائیویسی، قرار دے کر ریاست کو اس سب سے لاتعلق ہو جانا چاہیے؟
اکثر قابل احترام دوست پرائیویسی کے اس تصور کے حق میں ہیں لیکن میں اس تصور کا قائل نہیں۔ یہ ادھورا ناقص اور نا معتبر تصور ہے۔ یہ منطقی اور ناگزیر سی بات ہے کہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔ چار دیواری کے اندر کے نجی معاملات کو چھوڑ کر ان کی ایک ایک سرگرمی پر نظر ہونی چاہیے۔ جسے لگتا ہے اس سب سے اس کی پرائیویسی متاثر ہو رہی ہے وہ ان عہدوں سے الگ ہو جائے۔ ریاست کا مفاد پرائیویسی، کے اس ناقص تصور سے زیادہ اہم ہے۔
اس سلسلے میں ایک قانون سازی کی ضرورت ہے۔ یہ قانون سازی انگلش یا نو آبادیاتی جورس پروڈنس کے تناظر میں نہیں، بلکہ خالصتا پاکستانی جورس پروڈنس کے تحت ہونی چاہیے۔ ہمارے اپنے مسائل ہیں اور اپنی زمینی حقیقتیں ہیں۔ ہمیں اپنی جورس پروڈنس کی ضرورت ہے جو ہمارے مسائل اور ہماری ترجیحات کی روشنی میں مرتب ہوئی ہو۔