ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن: خرچے عوام کیوں برداشت کریں؟
الیکشن کمیشن نے حکم دیا، ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دوبارہ ہو گا۔ جان کی امان پائوں تو پوچھوں: کس کے خرچے پر ہو گا؟ اخراجات کون برداشت کرے گا؟ بجلی گیس کے بلوں، پٹرول اور جانے کس کس مد میں عوام کی رگوں سے لہو نچوڑ کر، کیا اس لیے وسائل اکٹھے کیے جاتے ہیں کہ اداروں میں ایک ضمنی انتخاب کرانے کی اہلیت نہ ہو، تو اس نا اہلی کے تاوان میں برباد کر دیے جائیں؟
الیکشن دو بار نہیں، دو سو بار کرائیے لیکن اتنا بتا دیجیے کہ اس کے اخراجات غریب عوام کیوں برداشت کرے؟ جن کی غلطی یا واردات کی وجہ سے الیکشن دوبارہ کرانا پڑ رہا ہے کیوں نہ ان ذمہ داران کا بھی تعین کر لیا جائے اور پھر ان کی جائیدادیں بیچ کر اس کے اخراجات پورے کیے جائیں؟ یا کم از کم پچاس فیصد اخراجات تو ان سے لیے جائیں۔ یہ کیساانصاف ہے، واردات کوئی اور کرے اور تعزیر کا کوڑا کسی اور کی پشت پر برسنے لگے؟
الیکشن کوئی مذاق نہیں ہوتا۔ یہ لڈو کا کھیل نہیں ہوتا کہ دوبارہ کھیل لیا جائے۔ یہ کرکٹ کا میچ بھی نہیں ہوتا کہ بیٹھ کر سپر اوور کے مزے لیے جائیں۔ یہ ایک طویل مشقت کا نام ہے، جس میں وسائل اور توانائی خرچ ہوتی ہے۔ انتخابی عملہ متحرک ہوتا ہے، پولیس کی ڈیوٹی لگتی ہے، سامان کی ترسیل پر پیسے خرچ ہوتے ہیں، بیلٹ پیپرز چھپتے ہیں، ووٹرز کی آمدو رفت پر اخراجات اٹھتے ہیں، پریزائڈنگ افسران سے لے کر ریٹرننگ افسران تک کتنے ہی لوگ تعینات کیے جاتے ہیں۔ پورے حلقے میں تعطیل ہوتی ہے۔ معمول کی زندگی رک جاتی ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے، ایک حلقے کا الیکشن غریب قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟ سوال وہی ہے کہ یہ الیکشن اگر کسی کی نا اہلی، غفلت یا واردات کی وجہ سے دوبارہ کرانا پڑے تو اس کے خرچے عام آدمی کیوں برداشت کرے؟ لوگوں میں اتنا شعور تو ہونا چاہیے کہ وہ سوال اٹھا سکیں، ہمارے بچوں کے حصے کی خوشیاں چھین کر، ہماری رگوں سے جو وسائل کشید کیے جاتے ہیں ان کے استعمال کی حدود و قیود کیا ہیں؟
اشرافیہ نے قومی وسائل کو مال غنیمت سمجھ رکھا ہے۔ یہاں احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ عمران خان صاحب حالیہ انتخابات میں پانچ حلقوں سے الیکشن لڑے۔ کتنے ہی روز تحریک انصاف داد فتح دیتی رہی ہے کہ ہمارے قائد نے تاریخ رقم کر دی۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس تاریخ کے رقم ہونے میں غریب قوم کے کتنے پیسے خرچ ہوئے۔ چونکہ آئینی طور پر ایک وقت میں ایک فرد ایک ہی حلقے کی نمائندگی کر سکتا ہے، اس لیے ایک نشست رکھ کر جناب عمران خان نے چار نشستیں چھوڑ دیں۔
چھوڑی ہوئی ان چاروں نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوا۔ اس ضمنی انتخاب کا سارا خرچ عوام نے ادا کیا۔ کسی نے عمران خان سے نہیں کہا، کہ جناب والا، آپ کو شکست کا خوف تھا یا آپ تاریخ رقم کرنا چاہتے تھے، جو بھی وجہ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کے شوق کی وجہ سے ریاست کو چار حلقوں میں دوبارہ انتخاب کرانا پڑ رہا ہے تو ازرہ کرم اس کا نصف خرچہ توتحریک انصاف کے فنڈ سے ادا کیجیے۔
اشرافیہ کو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ قومی خزانے میں جو کچھ بچا ہے وہ مال غنیمت نہیں امانت ہے۔ اس بے نیازی نے آج تک انتخابی اصلاحات نہیں ہونے دیں۔ احساس ہوتا تو سیاسی قیادت یہ قانون بنا چکی ہوتی کہ ایک آدمی ایک وقت میں ایک یا زیادہ سے زیادہ دوحلقوں سے الیکشن لڑے گا۔ یہاں عالم یہ ہے کہ ایک آدمی بیک وقت قومی اسمبلی کے دو تین حلقوں کے ساتھ ساتھ ایک دو صوبائی حلقوں سے بھی امیدوار ہوتا ہے۔ پھر ایک نشست رکھ کر باقی نشستیں چھوڑ دیتا ہے۔ وہاں ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔ سارا حلقہ اور ساری مشینری دوبارہ انتخابی عمل سے گزرتا ہے اور اس چولہے میں غریب قوم کے وسائل جھونکے جاتے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔
بھارت میں بھی 1996 تک ایسی ہی صورت حال تھی لیکن وہاں الیکشن کمیشن بروئے کار آیا اور اس نے حکومت اور سپریم کورٹ کو تجویز دی کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی جائے اور اگر پابندی نہیں لگائی جاتی تو پھر جو شخص جیت کر کوئی نشست چھوڑتا ہے، تو وہاں ہونے والے انتخاب کا کچھ خرچ اس شخص سے وصول کیا جائے۔ اس تجویز پر مکمل عمل تو نہ ہو سکا کیونکہ وہاں بھی حکومت نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا لیکن اتنا ضرور ہو گیا کہ اب وہاں کوئی شخص دو سے زیادہ نشستوں پر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کا الیکشن کمیشن اصلاح احوال کے لیے اس حد تک جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں کچھ نہیں کر پا رہا؟
کسی حادثے یا کسی امیدوار یا رکن کے انتقال کی صورت حال میں ضمنی انتخاب کرانا پڑے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ لیکن کوئی پانچ پانچ نشستوں پر کھڑا ہو کر جیت کر چار نشستیں چھوڑ دے یا کسی کی غفلت اور واردات سے انتخاب دوبارہ کرانا پڑ جائے تو پھر معاملہ مختلف ہوتا ہے۔
الیکشن سے پہلے اس سوال کا جواب دیجیے کہ دوبارہ الیکشن کا ذمہ دار کون ہے؟ ڈسکہ میں اگر انتظامیہ ہی کی غفلت ہے تو ان افسران کی ضلع بدری کیا کافی ہے؟ اگر واقعی وہی ذمہ دار ہیں توکیا ان کی ایک ایک سال کی تنخواہ ضبط کر کے انتخابی اخراجات کی مد میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کرائی جا سکتی؟ اور اگر ذمہ دار کوئی اور ہے تو کیا اس کے خلاف کوئی ایسی کارروائی نہیں ہو سکتی، جس سے ضمنی انتخاب کے اخراجات ادا کیے جا سکیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جس امیدوار نے دھاندلی کی(بھلے ایک نے یا دونوں نے) یا جس کو جتوانے کے لیے یہ سب کھیل رچایا گیا کیا آئین کے آرٹیکل 62 میں دی گئی شرائط کے مطابق وہ اب بھی دیانت دار، امین اور اچھے کردار کا حامل ہے؟ کیا وہ اب بھی سمجھدار اور پارسا ہے اور رکن پارلیمان بننے کی اہلیت پر پورا اترتا ہے؟