برطانیہ ، برصغیر اور پاکستان (1)
1947میں ہم آزاد ہو گئے لیکن ہمارے ہاں آج بھی وہ قوانین رائج ہیں جو برطانیہ نے ہمارے دور غلامی میں یہاں نافذ کیے تھے۔ ہمارا پورا فوجداری نظام اور قانون آج بھی وہی ہے جو برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس مقصد کے تحت یہاں متعارف کرایا تھا کہ آئندہ یہاں کسی کے سر اٹھانے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔ 7 اکتوبر1858کو صبح چار بجے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان بدر کیا گیا اور 1860میں یہاں رعایا کے لیے ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا۔ دور غلامی میں مسلط کیے گئے اس قانون کو آج ہم تعزیرات پاکستان، کہتے ہیں اور یہ ہمارے فوجداری نظام کی سب سے بنیادی اور اہم ترین دستاویز ہے۔
اس کے ایک سال بعد یعنی 1861 میں یہاں پولیس کا ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا۔ اسے پولیس ایکٹ 1861 کہا جاتا ہے اور عملا آج بھی یہی قانون ہے جس کے تحت پولیس کام کر رہی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے جب 1862 میں رنگون میں قید کے دوران انتقال کیا تو ہندوستان میں محکوم رعایا کے لیے ایک نیا قانونی نظام مسلط کیا جا چکا تھا۔ پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر آج بھی یہ اعلان مسرت، موجود ہے کہ ہم وہی پولیس ہیں جس کی بنیاد 1861 میں رکھی گئی۔
ضابطہ فوجداری ہمارے فوجداری نظام انصاف کی گویا شاہ رگ ہے۔ یہ 1898میں نافذ کیا گیا اور آج تک اسی کے ذریعے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری 121سال پرانا ہے۔ فوجداری معاملات میں جو حیثیت ضابطہ فوجداری کی ہے دیوانی معاملات میں وہی حیثیت ضابطہ دیوانی کی ہے۔ یہ قانون1908 میں بنایا گیا۔
یہ قانونی بندوبست شہریوں کے لیے نہیں تھا۔ یہ غلام اور محکوم رعایا کے لیے تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں کہیں اصلاح احوال یا انصاف نہ تھا، بنیادی ہدف یہ تھا کہ اس رعایا کو ایسے قانون کے ڈنڈے سے ہانکا جائے اور ایسی دیوانی دلدل میں اتار دیا جائے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں اور آئندہ یہ کسی بغاوت کا تو کیا سر اٹھانے کا بھی نہ سوچے۔
آج پاکستان میں نظام انصاف و قانون کا جو حال ہے وہ کسی تعارف یا تجزیے کا محتاج نہیں۔ اس کا تعلق بیان سے نہیں مشاہدے سے ہے۔ یہ وہ واردات ہے جو اس سماج پر بیت چکی ہے اور اس کی ایک ایک پور گھائل ہوئی پڑی ہے۔ اصلاح احوال کے لیے گاہے آوازیں بلند ہوتی ہیں اور دم توڑ دیتی ہیں۔ اس بنیادی نکتے کی طرف مگر کوئی نہیں آتا کہ جب تک ہم دور غلامی کے قوانین اور ان کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کرتے اصلاح احوال ممکن ہی نہیں۔ یہ محض چند قوانین کا معاملہ نہیں۔ دور غلامی کے ان قوانین کی ایک طویل فہرست ہے جو آج بھی نافذ العمل ہیں۔
کسی بھی قانون کو محض اس کے قدیم ہونے کی بنیاد پر رد نہیں کی جا سکتا اگر وہ ایک اچھے قانون کی تعریف پر پورا اتر رہا ہو۔ یہی معاملہ نو آبادیاتی دور کے قوانین کا بھی ہے۔ ان قوانین کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے اس سارے سماجی، سیاسی، معاشرتی اور تزویراتی پس منظر کو سامنے رکھا جائے جس میں یہ قانون سازی ہوئی۔ اس سوچ اور اس فکر کو بھی جان لیا جائے جو اس قانون سازی کی محرک تھی۔ ان اہداف کو بھی دیکھا لیا جائے جو اس کے نتیجے میں مطلوب تھے۔
برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام میں قانون و انصاف کی دنیا میں ہمارے ساتھ کیا ہوا اور اس کی نوعیت کتنی سنگین ہے اس کا درست طور پر جائزہ لینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ان قوانین کا جائزہ لینے سے پہلے برطانوی راج کا عمومی مطالعہ نہ کر لیں اور یہ جان نہ لیں کہ برطانوی تسلط نے اس سماج کو، اس کی قدروں کو، اس کی تہذیب کو، اس کی تعلیم کو، اس کی ثقافت کو، اس کی معیشت کو اور اس کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کیے۔ کیونکہ قانون کی دنیا میں جو کچھ ہوا، وہ اس واردات کا ایک جزو ہے، کُل نہیں۔ کُل کے ایک مختصر سے جائزے کے بعد جب ہم اس جزو کی طرف آئیں گے تو ہمیں اس واردات کو پورے سیاق و سباق میں سمجھنا آسان ہو گا۔
نو آبادیاتی دور کے قوانین سے پہلے یہ عمومی سماجی مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انڈین پینل کوڈ، یعنی موجودہ تعزیرات پاکستان کی تیاری کے ابتدائی مرحلے کی زمام کار بھی اسی شخص کے پاس تھی جو برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کی سماجی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیی کا فکری معمار بھی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ٹامس بے بنگٹن میکالے تھے، جنہیں ہم لارڈ میکالے کے نام سے جانتے ہیں۔ 1835 کے انگلش ایجوکیشن ایکٹ کے بعد کی صورت حال میں متحدہ ہندوستان میں تعلیمی پالیسی کی مبادیات بھی انہوں نے ہی طے کی تھیں اور 1833 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ(جسے چارٹر ایکٹ بھی کہتے ہیں) کے بعد گورنر جنرل کونسل (کونسل آف انڈیا) کے پہلے ممبر برائے قانون بھی مقرر ہوئے اور 1834 سے 1838 تک سپریم کونسل کا حصہ رہے۔ یعنی جس وقت وہ اپنا تعلیمی میمورنڈم پیش کر رہے تھے اس وقت وہ قانون کے معاملات بھی دیکھ رہے تھے۔ ان کی پیش کردہ تعلیمی میمورنڈم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل میں صرف تعلیم سے متعلق نہ تھیں بلکہ وہ ایک مکمل سماجی اور تہذیبی پیکج تھا۔ قانون اس مکمل اور ہمہ جہت پیکج کا صرف ایک پہلو تھا۔
اس نئے سماجی، تعلیمی ا ور قانونی ڈھانچے کے معمار کی فکری متوازن اور معتدل نہیں، انتہا پسندانہ، متکبرانہ اور یک طرفہ تھی۔ کارل مارکس نے انہیں تاریخ کا ایک منظم جعل ساز قرار دیتے ہوتے ان کے لیے A syestematic falsifier of Historyکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
یہاں کارل ماکس کا حوالہ دینا اس لیے موزوں ہے کہ برطانوی محققین اور مورخین جب ہندوستان میں اپنے نو آبادیاتی نظام کی تحسین کرتے ہیں اور اسے برصغیر کے لیے ایک نعمت خیال کرتے ہیں تو کارل ماکس کے موقف کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ کال مارکس نے لکھا تھا کہ ہندوستان میں برطانیہ کے تباہ کن اور جابرانہ اقدامات کو نظر انداز کر دینا چاہیے کیوں کہ برطانیہ ہندوستان میں سماجی انقلاب لا رہا ہے۔ باوجود اس کے اس عمل میں برطانیہ کی پالیسی بد ترین اور احمقانہ ہے لیکن اس کی پالیسی کا بد تر اور احمقانہ ہونا سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایشیاء میں بنیادی انقلاب لائے بغیر یہاں کی سماجی صورت حال کو بدلا جا سکتا ہے؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر قطع نظر اس بات کے کہ برطانیہ نے ہندوستان میں کیا جرائم کیے ہیں، یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ یہاں انقلاب لانے میں تاریخ کے ایک لاشعوری عامل کا کردار ادا کر رہا ہے۔
برطانوی سامراج جب بھی زیر بحث آتا ہے، کارل مارکس کے یہ اقتباسات ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ بعد میں کارل ماکس کے اپنے خیالات بھی بدل گئے تھے، بالخصوص1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی مظالم کی وجہ سے۔ (جاری ہے)