علی مسجد
علی مسجد کی شہادت کی ویڈیو دیکھی تو دل لہو سے بھر گیا۔ یہ غالبا پچیس سال پہلے کی بات ہے جب میں نے یہ مسجد دیکھی۔ ہم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ٹرپ پرپاک افغان بارڈر دیکھنے جا رہے تھے۔ اچانک ہی سڑک پر یونیورسٹی کی بس رک گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ مسجد علی دیکھ لیں۔ درہ خیبر کے ایک طرف بس رکی ہوئی تھی اور دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ یہ مسجد حضرت علی ؓسے منسوب تھی اور اس سلسلے میں مقامی روایات بڑی دل چسپ ہیں۔
مسجد کے ساتھ ہی ایک بورڈ نصب تھا جس پر اس مسجد کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی تھی۔ مجھے اب صحیح یاد نہیں کہ تحریر کیا تھی لیکن اتنا یاد ہے کہ اس کے مطابق یہاں حضرت علیؓ نے نماز ادا فرمائی تھی۔ میں نے حیرت سے ایف سی کے نوجوان سے پوچھا کہ حضرت علیؓ یہاں کب تشریف لائے تھے تو اس نے بتایا کہ اسے یہ تو معلوم نہیں البتہ مقامی روایات یہی ہیں کہ وہ یہاں تشریف لائے تھے اور مقامی روایات کے مطابق یہاں کا درہ خیبر انہوں نے ہی فتح کیا تھا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ مسجد ایک مقامی صوفی بزرگ سے منسوب ہے جن کا نام علی تھا۔ وہ تارک الدنیا درویش تھے اور غار میں عبادت کرتے تھے۔ ان کے کسی عقیدت مند نے ان کے لیے ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی کہ وہ یہاں عبادت کر لیا کریں۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ اتنی چھوٹی سی مسجد تھی کہ بمشکل تین آدمی ایک ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکتے تھے۔
ایک تیسری روایت یہ ہے کہ مسجد منسوب تو حضرت علیؓ سے ہی ہے لیکن وہ یہاں تشریف نہیں لائے تھے البتہ ایک مقامی بزرگ کو خواب آیا تھا اوراس نے خواب میں یہاں حضرت علیؓ کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان سے محبت اور عقیدت کے طور پر اس نے یہاں مسجد تعمیر کر دی۔
مدینہ کے نواح میں جس قلعے کو سیدنا علیؓ نے فتح کیا تھا، اس کا نام خیبر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر عبرانی زبان کا لفظ ہے اورا س کا معنی ہی قلعہ ہے۔ تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی چونکہ ساتھ قلعہ تھا اور اس درے کی ایک تجارتی اور تزویراتی اہمیت بھی بہت زیادہ تھی توشاید اسی لیے اس کا نام بھی خیبر رکھا گیا ہو۔ نسبت آگے بڑھتے بڑھتے یہاں تک جا پہنچی ہو کہ روایات میں اسی خیبر کو وہ خیبر بھی سمجھ لیا گیا ہو جو سیدنا علیؓ نے فتح فرمایا تھا۔
کئی صدیوں پرانی اس مسجد کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ برطانیہ اور افغانستان کے درمیان مشہور جنگ اسی مقام پر ہوئی تھی۔ افغانستان سے آنے اور یہاں سے جانے والے قافلے یہاں رکتے، دم بھرتے، نماز پڑھتے، اور آگے بڑھ جاتے۔ یہ مسجد اس خطے کی مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی نشانیوں میں سے ایک تھی۔ اس کو شہید ہوتے دیکھا اور اس کا مینارہ گرتے دیکھا تو جیسے دیوار دل خود پر آن گری۔
دہشت گردی کا چیلنج پھر سے اٹھ رہا ہے اور پوری قوت سے اٹھ رہا ہے۔ بلوچستان سے سابق فاٹا تک یہ پھیل چکا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں اور باہم کچھ مسائل بھی ہوں تو کوشش کی جاتی ہے کہ سر عام ان کا اظہار نہ ہو اور سفارتی چینلز کے ذریعے بات کی جائے۔ اس بار مگر پاکستان کی جانب سے واضح طور پر اور عوامی سطح پر سب کے سامنے اس موقف کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان اپنی زمین ہمارے ہاں دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے دے۔ یہی بات آرمی چیف نے بھی کہی اور خواجہ آصف نے بھی۔ افغان حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا ہماری پالیسی ہے ا ور ہم اس پر کاربند ہیں۔
تاہم اس کے باوجود محسوس یہ ہوتا ہے کہ حالات کشیدہ ہیں اور پاکستان سر بزم شکوہ کر رہا ہے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سی پیک کے احیاء کے ساتھ ہی خطے میں امکانات کا ایک جہان آباد ہونے جا رہا ہے اور پاکستان کی حد تک اس امکانی منظر نامے کا مرکز و محور بلوچستان ہے۔ اس لیے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ملک دشمن عناصر بھی کے پی اور بلوچستان میں متحرک ہیں اور اس خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس ضمن میں بہت سی قوتوں میں اشتراک عمل کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہو۔
اس معاملے کے بہت سے پہلو ہیں۔ تزویراتی بھی اور سماجی ا ور معاشی بھی۔ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی تو پاکستان میں خوشی کا سا سماں تھا۔ پاکستان بجا طور پر یہ توقع رکھتا ہے کہ افغانستان میں کسی گروہ کو پاکستان کے خلاف متحرک ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ افغان حکومت بھی اس عزم کا اعادہ کر رہی ہے۔ تاہم معاملات کافی پیچیدہ ہیں۔ اور دونوں ممالک کو خلوص نیت سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان افغانستان سے تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان اس صورت حال کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا جس سے وہ دو چار ہو چکا ہے۔ پاکستان کو ایک بار پھر میدان جنگ بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس میں علاقائی اور بین الاقوامی وہ قوتیں شامل ہو سکتی ہیں جو اس ساری پیش رفت سے خوش نہیں اور پاکستان کے معاشی امکانات کو بحران میں بدل دینا چاہتی ہیں۔
ان سب کو تزویراتی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور تذبذب یا مصلحت سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ داخل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی جتنا اہم معاملہ تزویراتی ہے اتنا ہی اہم سماجی اور معاشی بھی ہے۔
ان ہی سطور میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ جب سماجی اور سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے تو ا س کا فائدہ ملک دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں۔ یہاں سے انہیں خام مال ملتا ہے۔ چند ماہ پہلے جب کراچی میں برادر ملک چین کے عملے پر خود کش حملہ ہوا تھا تو یہ پاکستان میں پہلا ایسا خود کش حملہ تھا جو کسی خاتون نے کیا تھا۔ گارڈین نے لکھا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے ایک نئے چیلنج کی ابتدا ہے۔
Fiminisaation of terrorism in Baluchistanکے عنوان سے دنیا بھر میں تحقیقاتی مقالہ جات لکھے گئے لیکن پاکستان کا سیاسی اور فکری منظر نامہ اس سے بے نیاز رہا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہ سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب قریب نصف درجن ایسے کیسزسامنے آ چکے ہیں جن میں دہشت گردی کے واقعات میں خواتین کو مختلف مراحل میں استعمال کیا جا چکا ہے۔
دہشت گردی کا چیلنج روپ بدل بدل کر آ رہا ہے تواس سے نبٹنے کے لیے ہمہ جہت پالیسی چاہیے، تزویراتی بھی اور سماجی اور معاشی بھی۔ معاشی محرومی سے وہ فالٹ لائن پیدا ہوتی ہے جسے دشمن استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اس فالٹ لائن کو بھی ساتھ ہی بھرنا ہوگا۔ یہ فالت لائن جب تک ایکسپوزڈ رہے گی دشمن اسے استعمال کرتا رہے گا۔