افسران کے لیے ایگزیکٹو الائونس: یہ ملک ہے یا مال غنیمت؟
ملک دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار ہے، اس خطرے سے بچنے کے لیے مہنگائی کا ایک پہاڑ لوگوں کی کمر پر رکھ دیا گیا ہے اوردوسری جانب ایک لنگر خانہ کھلا ہے۔ لنگر خانے میں دال کی صورت مال غنیمت بٹ رہا ہے۔ تازہ ترین اعلان یہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام افسران کے لیے ایک حیران کن ایگزیکٹو الائونس جاری کر دیا گیا ہے۔ الائونس کے نام پر ہونے والی بند ر بانٹ کی سنگینی ہی کیا کم تھی کہ واردات میں مزید کمال یہ کیا گیاہے کہ اس سے ان تمام افسران کی بنیادی تنخواہ میں 150 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ بنیادی تنخواہ میں اس ہوش ربا اضافے کا مطلب کیا ہوتا ہے، یہ جاننے والے جانتے ہوں گے۔
آپ ملکی وسائل کی اس بے رحم اور سفاک انداز میں تقسیم کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ان افسران کی بنیادی تنخواہوں میں یہ 150 فیصد اضافہ اس 15 فیصد اضافے کے علاوہ ہو گا جو ابھی چند روز قبل بجٹ میں کیا گیا۔ یعنی اس معاشی بد حالی کے دور میں مسلم لیگ ن نے وفاقی بیوروکریسی کی تنخواہوں میں صرف ایک ماہ کے اندر اندر 165 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ یہی بیوروکریٹ اس مال غنیمت کو نوچ نوچ کر جب ریٹائر ہوں گے تو اس وقت انہیں پلاٹ بھی ملیں گے اور پھر عوام کی رگوں سے نچوڑے لہو کی لالی سے ٹسوے بہا بہا کر یہ اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر قوم کی رہنمائی کریں گے کہ ہائے ہائے ہائے، یہ ملکی معیشت کو کیا ہو گیا۔
اسلام آباد میں تمام سیکشن آفیسرز، تمام ڈپٹی سیکرٹریز، تمام جوائنٹ سیکرٹریز، سینیئر جوائنٹ سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، اسپیشل سیکرٹریز، وفاقی سیکرٹریٹ کے تمام سیکرٹریز، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے تمام افسران سمیت اسسٹنٹ کمشنرز، ڈپٹی کمشنر اور چیف سیکرٹری اس مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں گے اور اس بند بانٹ کے بعد کھڑے کھڑے ایک بیوروکریٹ کے تنخواہ میں دو لاکھ روپے ماہانہ تک اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ ساری رعونت کے ساتھ پھر عوام دشمن پالیسیاں بنائیں گے اور کندھے اچکا کر وعظ دیا کریں گے کہ کیا کریں، ملکی معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ ہمیں تو زہر کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں مل رہے۔
ابھی کل کی بات ہے مفتاح اسماعیل رجز پڑھ رہے تھے کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہم مشکل فیصلے کرتے رہیں گے اور ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ عوام کیا سوچتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہم اگر الیکشن ہار جاتے ہیں تو کیا فرق پڑے گا۔ ان کے الفاظ تھے، لعنت بھیجیں ایسے الیکشن پر۔ یہ گفتگو سن کر ایک لمحے کے لیے تو مجھ پر بھی رقت سی طاری ہو گئی کہ دیکھیے ہمارے حکمران ملک کے لیے کتنے مخلص ہیں کہ ناگزیر فیصلے کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی پرواہ نہیں اس کے نتیجے میں وہ الیکشن میں شکست سے دوچار ہو جائیں۔
اب مگر بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ جو بے نیازی عوام کے بارے میں اختیار کی گئی، ویسی ہی بے نیازی کا مظاہرہ بیوروکریسی کے بارے کیوں نہیں کیا جا سکا؟ عوام کو تو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں توپھر بیوروکریسی کو نوازنے کے لیے یہ لنگر کہاں سے کھل گیا؟ خلق خدا رحم کی درخواست کرے تو بتایا جاتا ہے خزانہ خالی ہے اور زہر کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں لیکن افسر شاہی کو نوازنے کے لیے خزانہ راتوں رات بھر جاتا ہے؟ قومی وسائل کو اس بے رحمی سے تقسیم کرنے سے تو بہتر تھا اس رقم سے زہر ہی خرید لیا جاتا۔
افسر شاہی کی یہ مراعات اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہیں لیکن یہ معاشرہ اس واردات سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ اہل قلم کا حال یہ ہے کہ جو بیوروکریٹ دستر خوان پر بٹھا لے یہ اس کے گن گانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہزار نوری سال میں ایسا عظیم افسر پیدا ہی نہیں ہوا۔ سیاسی کارکنان بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہتے ہیں اور انہیں بھی اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ملکی وسائل کو گھن کی طرح یہ افسر شاہی کھا رہی ہے اور عوام کے حصے کی خوشیاں چھین کر اس طبقے کو نوازا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک میں کوئی شخص، کوئی گروہ، کوئی جماعت، کوئی ادارہ باقی نہیں رہا جو اس واردات کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ کیا پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ بالادست طبقات کے ناز اٹھائے جا سکیں؟ کیا دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اشرافیہ اور افسر شاہی ایسی واردات کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟
اسلام آباد میں بیوروکریسی کے محلات کا رقبہ 864 ایکڑ ہے۔ اس جیسی دیگر مراعات کا دریا بہہ رہا ہے لیکن بیوروکریسی کی طاقت دیکھیے اس نے آج تک ان مراعات کی مونا ٹائزیشن نہیں ہونے دی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق صرف ان محلات کو مارکیٹ میں کرائے پر دیا جائے تو تیرہ چودہ ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور اگر انہیں نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے تو پونے دو کھرب حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہماری بیوروکریسی کی اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے افسران کی تنخواہ سے 12 فیصد زیادہ ہے۔
اسلام آباد کی بیوروکریسی کے موج میلے کے لیے سرکاری زمین پر اسلام آباد بنا کر دیاگیا ہے۔ 244 ایکڑ سرکاری زمین صرف ایک روپیہ فی ایکڑ سالانہ کرائے پر۔ اب اسے بڑھا کر گیارہ روپے فی ایکڑ سالانہ کر دیا گیا ہے۔ کوئی ہے جو پوچھ سکے کہ اسلام آباد میں ایک ایکڑ زمین کا سالانہ کرایہ کیا گیارہ روپے بنتا ہے؟
ہمارے ہاں اخبارات اور چینلز پر کرپشن کی خبروں اور تبصروں کا انبار لگا پڑا ہے لیکن اس بات کو کبھی موضع بحث نہیں بنایا گیا کہ کمشنر سرگودھا کا سرکاری محل 104 کنال پر کیوں پھیلا ہے۔ کبھی پارلیمان میں اس نکتے پر بات ہوئی ہو تو بتائیے کہ بیورکریسی کے نظام میں اصلاحات کی کوششیں ہر بار ناکام کیوں ہو جاتی ہیں۔ (یاد رہے کہ اس طرح کی یہ کوششیں 28 بار ناکام ہو چکی ہیں)۔
میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں اور اب تو سچی بات ہے اس موضوع پر مزید لکھنے کو دل ہی نہیں کرتا کہ یہ قوم اپنے مسائل، اپنی محرومیوں اور اپنے دکھوں پر بات ہی نہیں کرتی۔ یہ اپنے اپنے سیاسی قائدین کے قصیدے کہتی رہتی ہے اور یہ انہی کے غم میں دبلی ہوتی رہتی ہے۔ یہ اس کا مسئلہ ہی نہیں کہ اس کے والدین بیمار ہو جائیں تو علاج کی سہولت ہونی چاہیے اور اس کے بچوں کو اچھی تعلیم اور روزگارملنا چاہیے۔ چنانچہ یہاں کارکردگی بے معنی ہو چکی ہے۔ نفرت، ہیجان اور تعصب اسے ہانکنے اور ہانکتے چلے جانے کو کافی ہیں۔
لیکچرر حضرات یہاں پے پروٹیکشن کا اپنا جائز اور قانونی حق مانگ مانگ کر سڑکوں پر ذلیل ہو رہے ہیں اور عدالتی فیصلے کے باوجود انہیں یہ حق نہیں دیا جا رہا لیکن بیوروکریسی کی بنیادی تنخواہ میں 150 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ واہ، مفتاح بھائی واہ۔