ادویات: خرابی کہاں پر ہے؟
کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ڈاکٹرز ادویات کے نسخوں پر برانڈڈ اور مہنگی ادویات کیوں لکھتے ہیں، جب اسی فارمولے میں مارکیٹ میں درجنوں سستی ادویات موجود ہوتی ہیں تو ہمارے ڈاکٹر حضرات وہاں متعلقہ دوائی کا عام فارمولا نام لکھنے کی بجائے کمپنی کا برانڈ نام لکھنے پر بضد کیوں ہیں؟
ہوتا کیا ہے؟ واردات کو سمجھیے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ ڈاکٹر اس کے لیے ایک دوا تجویز کرتا ہے۔ وہ دوا دس بیس کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ اس دوا کے دو نام ہوتے ہیں۔ ایک generic name ہوتا ہے جو سب کا یکساں ہو تا ہے اور ایک برانڈ نام ہوتاہے جو ہر کمپنی کا الگ ہوتا ہے۔ بھارت میں اور شاید بنگلہ دیش میں بھی یہ قانون بن چکا ہے کہ ڈاکٹر دوا کا نام لکھیں گے، کسی خاص کمپنی کی برانڈڈ دوا کا نام نہیں لکھیں گے۔ بنگلہ دیش جیسے ملک میں صرف 20 فیصد ادویات برانڈڈ نام سے لکھی اور تجویز کی جاتی ہیں۔ جب دوا کا نام لکھ دیا یعنی اس کا فارمولا نام لکھ دیا تو اب مریض آزاد ہے وہ مارکیٹ میں جائے اور اس فارمولے پر تیار کردہ کسی بھی کمپنی کی دوا خرید لے۔ یعنی وہاں کا ڈاکٹر صرف ایک ڈاکٹر ہے وہ کسی برانڈ یا کسی خاص کمپنی کا کارندہ اور سیلز ایجنٹ نہیں ہے۔ ہاورڈ ہیلتھ سکول کی آج میں ایک تحقیق پڑھ رہا تھا اس کے مطابق امریکہ میں ڈاکٹرز کے 85 فیصد نسخوں پر برانڈڈ نام کی بجائے فارمولا نام درج ہو تا ہے۔
پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے، پورے جنوبی ایشیا میں نیپال اور پاکستان ہی ایسے ملک رہ گئے ہیں جہاں کسی دوا کا فارمولا نام نہیں لکھا جاتا۔ پاکستان میں ڈاکٹر کمپنی یعنی برانڈ کا نام لکھتا ہے اور مریض اس کی مہنگی دوا خریدنے جب مارکیٹ جاتا ہے تو میڈیکل سٹور والا اس کو بتاتا بھی رہے کہ اسی فارمولے میں یہ دوسری دوا دستیاب ہے جو سستی بھی تو تو مریض کہتا ہے " نہیں جی، مجھے تو وہی دوا لینی ہے جو ڈاکٹر صاحب نے لکھی ہے"۔ مریض کو شاید یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب نے مہنگی کمپنی کی دوا اس کی صحت کے لیے نہیں لکھی بلکہ اس لیے لکھی ہے کہ ان کا متعلقہ کمپنی کے میڈیکل ریپ سے معاملہ ہو چکا ہے، وہ کمپنی سے گاڑی لے چکے ہیں اور عمرے بھی فرما چکے ہیں اور معاہدے کے تحت انہوں نے ایک یا دو سال صرف یہی دوا لکھنی ہے اور اس کی ایک خاص مقدار میں فروخت یقینی بنانی ہے۔ ذرا ان بقلم خود مسیحائوں کے غیر ملکی دوروں پر مکمل پابندی لگائیے اور فارماسوٹیکل کمپپنیوں سے ان کے معاملات کی تحقیق کیجیے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ لیکن تحقیق کون کرے؟ معاملات ڈاکٹرز تک تھوڑے محدود ہونے ہیں۔ اگر قانون سازی نہیں ہو پا ررہی تو کیا عجب کھرا پارلیمان اور کابینہ تک چلا جائے۔
بھٹو صاحب کے دور میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ ڈاکٹرز کسی خاص کمپنی کا نام نہیں لکھیں گے وہ صرف دوا کا فارمولا نام لکھیں گے۔ کچھ دن یہ قانون نافذ رہا پھر ضیاء الحق صاحب کے دور میں یہ قانون بدل دیا گیا۔ تب سے اب تک ڈاکٹرز برانڈڈ ادویات ہی لکھ رہے ہیں اور اب تو یہ عالم ہے کہ عوام الناس کو ادویات کے اصل نام معلوم ہی نہیں، بس چند کمپنیوں کے برانڈڈ نام ہی انہیں معلوم ہیں اور وہی ادویات مہنگے داموں خریدی اوراستعمال کی جا رہی ہیں۔
مثال کے طورپر دوا کا اصل نام پیراسٹامول ہے لیکن برانڈ پیناڈول کا مشہور کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ دوا اور ناموں سے بھی دستیاب ہے۔ زولگینسما ایک بہت مہنگی دوائی ہے، یہ اس دوائی کا برانڈ نام ہے۔ یہی دوائی اسی فارمولے میں نصف قیمت پر بھی دستیاب ہے لیکن بیمار سمجھتا ہے کہ بس اس نام میں کوئی کمال ہے اور اسے کوئی بتانے والا نہیں کہ بھائی اپنے پیسے برباد نہ کرو، مہنگی اور سستی دوا کا فارمولا ایک ہی ہے۔ ایسی ادویات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے برانڈ نام کی قیمتیں ان کے فارمولا نام سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیکن یہاں نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی کسی کو پوچھنے والا ہے۔ سب کو سیاست کا چسکا لاحق ہے اور ہر طرف سیاسی بحث زوروں پر ہے۔ وزرائے کرام بھی یہاں اتنے "ویلے" اور فارغ ہیں کہ ہر وقت سیاسی موضوعات پر تبصرے فرمانے کو دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایماندار ی سے متعلقہ شعبوں میں کام کر رہے ہوں تو ان کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کا وقت ہی نہ ہو۔ لیکن یہاں ریلوے کا وزیر امور خارجہ پر قوم کی رہنمائی فرما رہا ہوتا ہے اور سائنس ایند ٹیکنالوجی کا وزیر آستینیں چڑھائے اہل مذہب کے تعاقب میں ہوتا ہے۔ اپنے متعلقہ شعبے میں کسی کو دلچسپی ہی نہیں۔ اصلاح احوال کیسے ہو سکتی ہے؟
مقامی انڈسٹری، آٹو موبائل کی ہو یا فارماسوٹیکل، پوری توجہ اور محنت سے برباد کی گئی ہے۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ یہاں کوئی کام نہ کر سکے۔ انڈسٹری کے لیے آج تک ون ونڈو آپریشن کی سہولت پر نہیں سوچا گیا۔ ایک یونٹ لگانا ہو تو سرمایہ کار دو درجن دفاتر میں دھکے کھاتا رہتا ہے۔ الا ماشاء اللہ، ہر محکمہ اسے ذلیل کر کے اس سے حرام کھانے پر تلا ہوتا ہے، سہولت دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ رہی سہی کسر اس حکومت نے خوف کی فضا پیدا کر کے پوری کر دی ہے۔ خوف اور سرمایہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ مقامی صنعت تباہ ہو چکی ہے۔
ہمارا قومی مزاج بھی بیمار ہے۔ ہم معاشی خوشحالی بھی چاہتے ہیں لیکن ہم سرمایہ دار سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ ہر سرمایہ کار ہمیں بے ایمان لگتا ہے۔ سیاسی قیادت کے فضائل میں بھی اب یہ ملامتی سوچ در آئی ہے کہ فلاں کے کوٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے اور فلاں کے بیٹے کی بنیان پھٹی ہوئی، پس ثابت ہوا دونوں بہت ایماندار ہیں۔ یعنی ایمانداری اب کنگلا ہونے کا نام ہے۔ چنانچہ اپنے سرمایہ کار کو ہم بھگا دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم غیر ملکی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہمارا مشیر صحت ساری بے بسی سے بتا رہا ہوتا ہے: کیا کرتے دوائیں مہنگی نہ کرتے تو مارکیٹ میں دوائیں ملنی ہی نہیں تھیں۔