1.  Home
  2. Ashraf Sharif
  3. Mehangai Ke Maare Log

Mehangai Ke Maare Log

مہنگائی کے مارے لوگ

تنخواہ دار اور دیہاڑی پر کام کرنے والوں کی آمدن پی ٹی آئی حکومت میں چالیس فیصد کم ہو گئی ہے۔ یعنی جن کی تنخواہ چالیس ہزار تھی وہ قدرمیں کم ہو کر چھبیس ہزار رہ گئی۔ ایک لاکھ والے اپنے لا پتہ ہونے ہوئے چالیس ہزار تلاش کر رہے ہیں۔ کاروباری طبقے کے لئے مہنگائی ایک طرف لاگت بڑھاتی ہے تو اس میں نقصان اپنی مصنوعات کی قیمت بڑھا کر پورا کر لیتے ہیں۔ اس لئے مہنگائی کا تصور ان کی نظر میں بہت بھیانک نہیں۔ اس صورت حال کو تنخواہ دار طبقے کی بے بسی اور سماج میں تنخواہ دار اور کاروباری طبقات کی تقسیم قرار دیا جا سکتا ہے۔ کسی سماج میں جب طبقاتی خصوصیات ابھرنے لگتی ہیں تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتوں کی رائے پر جو حضرات اثر انداز ہوتے ہیں ان کا سماجی تغیرات اور طبقاتی علوم سے دور دور کا واسطہ نہیں اس لئے ان کی دانش حکمرانوں کی مدح سرائی پر خرچ ہوتی ہے، وہ خلعت فاخرہ پاتے اور شاہ کے مصاحب ہونے پر اتراتے ہیں۔ جو لوگ معاملے کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہیں وہ خود جلتے کڑھتے رہتے ہیں، سماج یا فیصلہ ساز ایسی خشک اور بے لطف مباحث سے اپنے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرتے، نہ میڈیا بے سوادے موضوع پر بات کرتا ہے۔

سرکاری ملازمت والوں کو کم از کم کچھ اطمینان ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت معقول رقم اور ماہانہ پنشن مل جائے گی، ریٹائرمنٹ کی مدت تک ملازمت کا تحفظ حاصل ہے، نجی شعبے میں ایسا نہیں۔ پاکستان میں بارہ کروڑ افراد دیہاڑی دار اور پرائیویٹ اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ کل آبادی کا گویا پچاس پچپن فیصد۔ ان میں سے چند ہی ہوں گے جن کو ملازمت کے دوران اولڈ ایج بینیفٹ، میڈیکل انشورنس، تنخواہ میں سالانہ اضافہ اور بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کی سہولت حاصل ہے۔ اکثر کی زندگی کسی المیے سے کم نہیں۔ رہی بات لیبر کورٹس کی تو ملک پر کارخانہ داروں کی حکومت آنے کا سب سے پہلے اثر لیبر کورٹس پر پڑا۔ ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اب لوگ اپنی شکایات لئے پھر رہے ہیں، ریاست نے ان کے مددگار جو ادارے بنائے تھے وہ غیر فعال کر دئیے گئے۔ پھر لیبر اور ٹریڈ یونین کا نظام تباہ کیا گیا۔ یہ تنظیمیں مزدور حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی جاتی تھیں۔ 1973ء کے آئین میں شہریوں کو جو آزادیاں دی گئی ہیں ان میں ٹریڈ یونین کی سہولت بھی شامل ہے۔ ٹریڈ یونین تشکیل دینا اور مزدور حقوق کے لئے آواز بلند کرنا آئینی و قانونی حق ہے، ایسا ہی حق جیسا ووٹ کو عزت دو والے طلب کرتے ہیں، جیسا شفاف انتخابی نظام کا مطالبہ دھرنے میں کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے جاگیردار اور کارخانہ دار جس ایوان میں بحث کرتے ہیں اسے مقدس کہتے ہیں، مزدور جس جگہ اپنے مسائل کا رونا روئیں اسے منہدم کرا دیا جاتا ہے یا مزدور رہنما کو نوکری سے برطرف کر کے جتلا دیا جاتا ہے کہ سماج میں پرائیویٹ ملازمت کرنے والے اور دیہاڑی داروں کے حقوق کا کوئی احترام نہیں، ٹریڈ یونین اور اس کے رہنما بھی اب کاروباری بن گئے ہیں۔

وطن عزیز میں جس قدر حکومتیں آئیں کسی نے اس طبقاتی امتیاز سے ابھرتی بے چینی کا تخمینہ نہیں لگایا۔ اگر انتخابات میں ووٹنگ کی شرح کا رجحان دیکھیں تو ہر بار 35سے پچاس فیصد تک ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ باقی اس عمل سے لاتعلق رہتے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی زحمت کی کہ ایک سروے کروائے جس میں معلوم کیا جائے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کیوں نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں کے پاس اربوں روپے کے فنڈز اور ملک کے ہر حصے میں تنظیم ہوتی ہے، انہوں نے بھی ایسا مفید کام خود پر حرام کر رکھا ہے۔ حکومت کسی کی ہو، دور کوئی بھی ہو کسی نے پچاس فیصد ناراض آبادی کو منانے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ سب اپنی زندگی، اپنی مراعات اور اپنے محدود دائروں میں سرگرم عمل ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست کے امتیازی سلوک پر ناراض محروم طبقات کو قانونی طور پر مضبوط کیا۔ پرائیویٹ ملازمین کو پنشن، گریجویٹی، میڈیکل اور ملازمت کا تحفظ دیا۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی پر بتدریج مزدور دشمن عناصر کی گرفت بڑھنے لگی لیکن اس گئے گزرے دور میں بھی لوگ ذوالفقار علی بھٹو کا کسی دوسرے رہنما سے تقابل پسند نہیں کرتے۔

حکومت بتا رہی ہے کہ رواں برس تارکین وطن نے 29ارب ڈالر کے لگ بھگ رقوم وطن بھیجیں۔ حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ درآمدات کم اور برآمدات میں اضافہ ہونے سے کچھ زیادہ ڈالر ملے ہیں۔ چند ہفتے قبل حکومت کو کورونا کی وبا میں مدد کے طور پر آئی ایم ایف کی طرف سے پونے تین ارب ڈالر ملے۔ ان حالات میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ایک معمہ ہے۔ جب کسی کی سمجھ میں بات نہیں آتی تو سارا ملبہ افغانستان کی صورت حال پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ فیصلے کرنے والوں کی استعداد پاکستان کے مسائل کا ادراک نہیں کر رہی۔

کاروباری طبقہ اور اعلیٰ سرکاری ملازمین مراعات یافتہ گروہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ عام شہری کے برابر نہیں سمجھے جاتے۔ ان کے جرائم پر پولیس حرکت میں آتی ہے نا عدالتیں انصاف کرتی ہیں۔ یہ شہر کے کوڑے دانوں سے دور الگ سرسبز بستیاں آباد کرتے ہیں۔ ان کی گاڑی کا چل ایئر کنڈیشنر باہر کھیتوں کا نظارہ دلکش بنا دیتا ہے لیکن وہ اس دلکش نظارے کا حصہ بننے کی ہمت نہیں کرتے، شیشہ نیچے کر کے یا دروازہ کھول کر باہر نہیں آتے کہ حبس اور گرمی ان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ پچاس فیصد آبادی محروم لوگوں کی ہے، وہ حبس زدہ مستقل منظر کا حصہ ہیں۔ کیا ان کا کوئی پرسان حال ہے؟

Check Also

Riyasat Kab Kuch Kare Gi?

By Saira Kanwal