1.  Home
  2. Ashraf Sharif
  3. Khud Ko Challenge Karna

Khud Ko Challenge Karna

خود کو چیلنج کرنا

جانتا ہوں کہ افغانستان کے واقعات نے پوری قوم کی سانس چڑھا رکھی لیکن حتمی اعلانات اور معاہدوں تک یہ تبصرہ اٹھا رکھتے ہیں۔ میں جس سپورٹس کمیونٹی سے بچھڑی کونج ہوں وہاں جسم کے کسی حصے پر چربی چڑھ جانا ناقابل قبول ہے۔ دس سال پہلے ایک نیشنل مقابلے کی تیاری کے بعد واپس معمول کی بھاری ورزش کرتے ہوئے پہلی بار غلطی ہوئی۔ مجھے ٹی بار کی ورزش کرنا تھی۔ اس ورزش سے کمر کا پچھلا بالائی حصہ چوڑا ہوتا ہے، کندھے کی پشت کے پٹھے ابھرتے ہیں، پیٹ کے سامنے والے حصے کی برداشت بڑھتی ہے۔ زیادہ زور ریڑھ کے نچلے حصے پر پڑتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ بدن کے ساتھ چپکی بیلٹ باندھ کر ورزش کی جائے۔ میری بیلٹ جم میں کوئی دوسرا استعمال کر رہا تھا۔ ایک سخت بیلٹ فارغ پڑی تھی میں نے اس کو باندھ لیا۔ تین ماہ تک کم ویٹ کے ساتھ زیادہ ریپی ٹیشن کرنے سے اکتا چکا تھا، دل کیا کہ وزن بڑھایا جائے۔ لگ بھگ 5من وزن تھا۔ پہلا ریپ کیا، دوسری بار رکوع کی حالت میں جھکے ہوئے ویٹ سینے تک آیا لیکن جونہی واپس زمین کی طرف گیا کمر سے کڑاک کی آواز آئی۔ بیلٹ سخت ہونے کی وجہ سے جسم کے ساتھ چپکی ہوئی نہیں تھی۔ 5من کا بوجھ جھکی ہوئی کمر پر سیدھا آپڑا۔ میں جہاں تھا وہیں بت بن گیا۔ نہ سیدھا کھڑا ہوا جائے، نہ بیٹھا جائے۔ ایک لمحے میں اگلی زندگی کی معذوری دماغ میں گھوم گئی، ایک شدید قسم کا پچھتاوا کہ جان بناتے بناتے میں نے زندگی خراب کر لی۔ میرے دوست اور ٹرینر سہیل چودھری نے کوشش کی کہ میری کمر سیدھی ہو جائے لیکن جونہی میں رکوع سے قیام والی حالت میں جانے کی کوشش کرتا شدید درد نکلتا۔ یونس جم میرے پہلے کوچ اور استاد مسٹر پاکستان چودھری محمد یونس مرحوم کے نام سے ہے۔ گرین ٹائون میں جم دوسری منزل پر ہے۔ سیڑھیاں اترنا بذات خود ایک دشوار عمل تھا۔ میرا ٹریننگ پارٹنر عرفان میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے لایا۔ میں گھر سے پیدل جم جایا کرتا تھا۔ عرفان نے میری حالت دیکھی تو اپنی موٹر سائیکل نکالی۔ حالت اتنی خراب کہ میں اس پر بیٹھ نہ سکا۔ عرفان میرا جونیئر اور بڑا باادب ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آیا۔ بڑی مشکل سے بیڈ پر لیٹا۔ لیٹا کیا گرا، اب لیٹ تو گیا مگر نہ کروٹ لی جائے نہ اٹھ سکوں۔ اللہ بھلا کرے ہمارے دوست ڈاکٹر اشرف نظامی کا۔ رات 11بجے کے لگ بھگ ان کو فون کیا۔ انہوں نے کچھ ادویات لکھوائیں۔ آٹھ دن بعد چیک کروانے کا کہا۔ آٹھویں دن جب شام کو انہوں نے حالت پوچھنے کے لئے فون کیا تومیں ایوان اقبال میں اپنی پسندیدہ گلو کارہ تصور خانم کے سامنے بیٹھا"تو میری زندگی ہے" سن رہا تھا۔

پندرہ بیس دن کی دوا اور جسمانی حرکات میں احتیاط سے میں سیدھا چلنے پھرنے لگا۔ بظاہر ٹھیک ہو گیا لیکن اب نہ بوجھ اٹھاتا ہوں نہ ایسی ورزش کرتا ہوں جس کادبائو کمر پر پڑے، اللہ نے معذوری سے بچا لیا، بس اسی لئے ویٹ کے ساتھ ورزش کم ہی کرتا ہوں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہر سال موسم بہار اور برسات کے قریب کمر کا سائز 36 انچ ہو جاتا ہے، پانچ فٹ دس انچ کی قامت کے ساتھ یہ سائز دوسروں کو برا نہیں لگتا لیکن سپورٹس مین جانتا ہے کہ اس میں کیا کمزوری پیدا ہورہی ہے اور اسے کیسے ختم کرنا ہے۔ جم جانے کا وقت اب کم ملتا ہے لہٰذا گھر میں ورزش شروع ہو جاتی ہے۔ ٹوسٹنگ، سائیڈ بینڈ، لیگ ریز اور کرنچز کر کے ساری چربی بھگا دیتا ہوں۔ آج کل یہی ورزشیں جاری ہیں۔ امید ہے اگلے دو ماہ تک سکس پیک پھر سے باہر آ جائیں گے۔ ہمارے ہاں لوگ ورزش کی باتیں کر کے خود کو دبلا کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جم جانا کئی بار مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ مخصوص لباس، جوتے، آنے جانے کا جھنجٹ اور پھر فیس کی ادائیگی اس مہنگائی مارے دور میں بعض افراد کے لئے مشکل ہو سکتاہے۔ گھر میں ان تکلفات کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ آپ جو ورزش کر رہے ہیں وہ کیوں اور کیسے کر رہے ہیں اسکا علم ہو۔ ذرا سی بے احتیاطی اور غلط ورزش آپ کے لئے سدا کی زحمت ہو سکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کندھوں اور کمر کی تکلیف نکل آئے تو باڈی بلڈر کو ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ میرا خیال ہے سبھی کو اس میں احتیاط کرنی چاہیئے۔ آرنلڈ شوارزنگر مسٹر اولمپیا رہے ہیں۔ ان کے ٹریننگ پارٹنر فرینکو کولمبو بھی دنیا کے سب سے بڑے ٹائٹل مسٹراولمپیا کو حاصل کر چکے ہیں۔ ہوا یہ کہ فرینکو کولمبو کو بخار کے بعد اپنی ایک ٹانگ سوکھتی محسوس ہوئی۔ اس وقت تک وہ مسٹر ورلڈ جیسے ٹائٹل جیت چکے تھے۔ فرینکو نے امریکہ کے ہر ماہر ڈاکٹر کو دکھایا۔ سب نے مایوسی کا اظہار کیا۔ آخر اپنا علاج خودکرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے خوراک، ادویات اور ورزش کا نیا شیڈول تیار کیا۔ دو سال کے بعد فرینکو کولمبو ناصرف اپنی سوکھی ٹانگ کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انہوں نے بعد میں مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل بھی جیتا۔ ان کی تحقیقی کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی اور اب لوگ انہیں ڈاکٹر فرینکو کولمبو کہہ کر پکارتے ہیں۔

پاکستان باصلاحیت افراد کا ملک ہے لیکن قدرتی صلاحیت کی ایک خاص حد تک پرواز ہوتی ہے ہمارے ہاں جم بن رہے ہیں لیکن سپورٹس میڈیسن، سپورٹس انجری اور سپورٹس سائنسز کے شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ نوجوان راتوں رات آرنلڈ بننے کے شوق میں ممنوعہ ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کو ریورس کورس کرانے کا انتظام موجود نہیں۔ ان حالات میں اگر آپ سادہ غذا کے ساتھ گھر میں کچھ پسینہ بہانے کے عادی ہو جائیں تو آپ کا بدن ہرکولیس کے مجسمے جیسا نہ سہی ایک معقول شکل میں ضرور آ سکتا ہے۔ آپ اگلے دو ماہ کے لئے ورزش کا ہدف متعین کریں اور اللہ کا نام لے کر شروع ہو جائیں۔ میرے جاننے والے مجھ سے باغبانی اور فٹنس کے ٹپس لیتے رہتے ہیں، کوئی بیس فیصد ہی عمل کرتے ہیں، باقی باتوں سے کام چلاتے ہیں۔ ہم جتنی ٹینشن اور دباو والی زندگی گزارتے ہیں اس کا علاج صرف ورزش ہے۔ اندازہ کر لیں کہ سیاسی شخصیات ورزش کو نہ اپنا کر اپنے جسم اور دماغ دونوں کو تباہ کر رہی ہیں لہذا سو ل ملٹری ریلیشن اور کارکردگی کو سمجھنے کا ایک پہلو مزاح کے رنگ میں یہ بھی ہے۔

Check Also

Shadi Kis Umar Mein?

By Khateeb Ahmad