Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Ashraf Sharif/
  3. Janab Ahsan Bhawan Kuch Madawa Kar Payen Ge?

Janab Ahsan Bhawan Kuch Madawa Kar Payen Ge?

جناب احسن بھون کچھ مداوا کر پائیں گے؟

کمال کا زوال پیش کیا ہے جناب علی احمد کرد نے۔ یورپی یونین کی سفیر اندرولا کامینار، جرمنی کے نائب سفیر فلپ ڈچمن، برطانوی ہائی کمشنر کرسچین ٹرنر، اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ کے نمائندہ کنوٹ آسٹبی اور کینیڈین ہائی مشنر وینڈے گلمر کی موجودگی میں ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی وہ پاکستان پر مزید پابندیوں کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر جمع کئے گئے نعرے بازوں نے تقریب کو پاکستان مخالف سرگرمی بنا کر جناب احسن بھون اور ان کے ساتھیوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ اس نقصان کا ادراک احسن بھون کو ہے اسی لئے بطور صدر سپریم کورٹ بار انہوں نے بعد ازاں مختلف ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے جناب علی احمد کرد کی مذمت کی اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ و دیگر اعلیٰ ججز کے فیصلوں پر تنقید کو آداب میزبانی کے خلاف قرار دیا۔

اگر کہا جائے کہ عاصمہ جہانگیر کی جمہوری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد اس تقریب نے پاکستان کے دشمنوں کو خوش کر دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ تقریب کا موضوع، انسانی حقوق کا تحفظ اور جمہوری استحکام کے لئے عدلیہ کا کردار، تھا۔ معذرت کے ساتھ ہم سب ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں اور کردار کی بجائے دوسروں کو ان کے فرائض یاد دلانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ میرے گھر میں چار وکیل ہیں، ان کا رویہ کئی بار مجھے الجھا دیتا ہے تاہم ہم اپنے رشتے اور باہمی محبت کی وجہ سے ایک دوسرے کو قائل بھی کر لیتے ہیں، بنا لڑے۔ جناب احسن بھون آئندہ کسی تقریب میں بار کو اپنے فرائض یاد دلانے کا چارہ کریں کیونکہ ہم سب دوسرے کی اصلاح چاہتے ہیں، خود احتسابی پسند نہیں کرتے۔ اچھی روائت جناب احسن بھون جیسا متوازن رہنما ہی ڈال سکتا ہے۔

ایک شک ہے کہ تقریب کا ایجنڈہ ہائی جیک کر لیا گیا۔ اس کی ایک معقول وجہ ہے۔ بھارتی میڈیا علی احمد کرد کو رپورٹ کر رہا ہے، منظور پشتین کے نکات اٹھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مشکوک شناخت والے اور ن لیگ کی کمپین والے اکاونٹس ان تقریروں کے کلپ چلا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا وہ ملبہ جو پاکستان کی طرف پڑا ہے اس کا مقدمہ منظور پشتین نے ریاست پاکستان پر بنایا، سپریم کورٹ بار کی تقریب میں۔ ایک جنرل، ایک جنرل، ایک جنرل۔ اور تقریب کو خراب کرنے والوں کے نعرے۔

پروپیگنڈہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ناپسندیدہ شخصیت کو بار بار پاکستان کا نجات دہندہ کہا جائے اور اس کے پیرو کار اسے واقعی ایسا سمجھنے لگیں۔ عام حالات میں جو انفارمیشن ہمیں احمقانہ معلوم ہوتی ہے وہ بار بار ٹی وی پر بیٹھے مبصرین اور جلسوں کے مقررین کی زبان سے سن کر ہم اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ڈاکو، قاتل، رشوت خور، قبضہ گروپ، جعلساز اور ظالم اپنا امیج تبدیل کرنے کے لئے کس طرح کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ لوگ انہیں معزز سمجھنے لگتے ہیں، میڈیا ان کے بیانات کی شہ سرخیاں بناتا ہے اور ووٹر ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک غنڈہ رہا کرتا تھا، آپ کے علاقے اور محلے میں بھی ایسے غنڈے ہوں گے۔ یہ غنڈہ حرمتوں کی پامالی سے لے کر ڈکیتی اور لڑائی مارکٹائی تک سب کچھ کرتا۔ محلے میں پرامن رہتا تھا۔ اس لئے جب ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تو اس کے لواحقین اور محلے دار فیروز پور روڈ پر آ گئے۔ انہوں نے لاش اٹھا رکھی تھی۔

پاکستان بھر میں قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے بلاک کے پارک پر قبضے کی کوشش ہوئی۔ پہلے سے دولت مند ایک شخص کئی جائیدادوں پر ایل ڈی اے اہلکاروں کی مدد سے قبضہ کر چکا ہے۔ چار پانچ عمارتیں فلیٹس کی شکل میں بنا رکھی ہیں۔ درجنوں دکانیں ہیں۔ ہوس کا ٹھکانہ نہیں۔ اے ایس پی کو ساتھ ملا کر تعمیر شروع کی تو علاقہ مکین باہر آ گئے۔ اس شخص کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی کیونکہ اس وقت جو جماعت برسر اقتدار تھی یہ اس کے انتخابی اخراجات برداشت کرتا ہے۔ بیٹا ایک سینئر قانون دان کا ایسوسی ایٹ ہے۔ منشا بم کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ منشا بم سابق حکمران جماعت کا حامی ہے اس خاندان کے اکثر لوگ قبضہ کا کام کرتے ہیں۔ منشا بم کا کردار ظلم کرتا رہا لیکن کسی حکومت اور خادم اعلیٰ کو دکھائی نہ دیا۔

آپ میں سے اگر کسی کو موقع ملے تو حکومتوں کی چاپلوسی کرنے والی ٹریڈ یونین کے رہنمائوں کا تجزیہ کرے۔ اکثر جعلی ڈگری والے، ٹریڈ یونین فنڈز کو ذاتی استعمال میں لانے والے۔ میں ایسے کئی یونین بازوں کو جانتا ہوں جو اداروں کو بلیک کر کے فنڈز ہتھیاتے ہیں۔ کارکنوں کی بجائے یہ فنڈز چہیتے لوگوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد کم ہوتی ہے اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ پڑھے لکھے اور معقول لوگ یونین سرگرمیوں کو گند سمجھ کر اس طرف نہ آئیں۔ ہمارے میڈیا میں کئی بہروپئے گھس آئے ہیں۔ کئی کالم نگاروں، ایڈیٹروں اور اینکر پرسنز کو سیاسی جماعتوں نے خرید لیا ہے۔ میڈیا سیل بنے ہوئے ہیں، یہ جو کچھ صحافی خاموشی سے دولت مند ہو جاتے ہیں وہ اپنی پیشہ وارانہ دیانت کو پیدا ہوتے ہیں ریت میں دفنا کر ایسے سفاک بنے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ بسا اوقات اقلیتیں اور چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے نمائندے اکثریت کے ساتھ بہت زیادتی کر جاتے ہیں۔ توجہ حاصل کرنے کے لئے شدت پسندانہ بیانات دیے جاتے ہیں۔ محمود اچکزئی کی وہ تقریر ہر بار زخم تازہ کر دیتی ہے جو مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسے میں کی گئی۔ موصوف نے پنجابیوں کو طعنے دیتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ پنجاب کی میزبانی کے باعث وہ سٹیج پر کھڑے ہیں۔ اب جناب علی احمد کرد نے شوشہ چھوڑ دیا۔ اچھا کیا چیف جسٹس گلزار احمد اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان کو جواب دیدیا۔ پروپیگنڈہ اس شدت سے ہو رہا ہے کہ ہمیں سپریم کورٹ بار کے نئے عہدیداروں کے خیالات سننے کا موقع نہیں ملا۔ کسی نے کرد صاحب سے یہ بھی نہ پوچھا کہ جمہوریت جب ماڈل ٹاون میں چودہ بندے مار دیتی ہے تو وہ کتنی مستحکم ہوجاتی ہے۔

Check Also

Governor Hai Aik Bhala Sa

By Najam Wali Khan