Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Asadullah Ghalib
  3. Awam Ke Liye Mehangai Relief

Awam Ke Liye Mehangai Relief

عوام کے لئے مہنگائی ریلیف

وفاقی حکومت نے مہنگائی سے ریلیف کے لئے دس ارب کی سبسڈی کاا علان کیا ہے۔ ا سکے لئے خوردنی کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں سستی کی گئی ہیں اور یہ ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹورز پر دستیاب ہوں گی۔ یوٹیلٹی اسٹور کے ایم ڈی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے اسٹورز پر تمام ا شیاء کی فراوانی ہے، ان کی کوالٹی کو لمحہ بہ لمحہ چیک کیا جا رہا ہے۔ اور کسی اسٹور سے لوگوں کو اشیا دینے سے انکار نہیں کیا جارہا۔

مہنگائی برصغیر کے دونوں ملکوں کا مسئلہ ہے۔ بھارت میں اسکی سنگینی زیادہ ہے اس لئے کہ اس کی آبادی بھی زیادہ ہے اور وہاں مودی صاحب دوسری ٹرم گزار رہے ہیں اور انہوں نے عوامی خوشحالی کا نعرہ لگایا تھا یہ مگر دلیل پاکستان میں مہنگائی کے لئے کافی نہیں، حکومت کے پاس ایک دلیل ہے کہ اسے معیشت زیر وزبر ملی۔ غیر ملکی قرضوں کو بوجھ ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا چکا تھا اور افراط زر پر پچھلی دونوں حکومتوں کے مصنوعی طریقوں اور سب سے کنٹرول کیا ہو اتھا۔ ڈالر اور روپے کی قدر کو بھی اسی طرح غیر منطقی طور پر کنٹرول کیا گیا تھا۔ ماضی کے قرضے اتارنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضے لینے پڑے جن کی کڑی شرائط تھیں آئی ایم ایف کی شرائط ہمیشہ سخت اور عوام دشمن ہو تی ہیں اور یہ قرضے کئی عشروں سے لئے جا رہے ہیں اور عوام کومہنگائی کی چکی میں وقت بے وقت کچلا جاتا رہا ہے۔ کبھی ریلیف دے کر خوش کر دیا گیا مگر محترمہ بے نظیر نے پاور سیکٹر میں ایسے معاہدے کئے جن کی وجہ سے بجلی مہنگی ہو تی چلی گئی۔ گیس کی قیمتوں کو بھی زبردستی ایک سطح پر برقرا ررکھا گیا تھا۔ اب ان کو بھی بڑھانا پڑا ہے تو عوام کو بوجھ محسوس ہوا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں عالمی منڈی میں مہنگی ہو رہی ہیں اسلئے اس سیکٹر میں بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا سکا۔

حکومت کے دلائل میں وزن ہے یا نہیں۔ اس پر بحث نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ملک کی مالی اور معاشی حالات سخت دگر گوں ہے،۔ کوئی شعبہ بھی حکومتی سبسڈی کے بغیر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سبسڈی کب تک دی جائے اور کہاں سے دی جائے۔ عوام تو ٹیکس دیتے ہیں مگر تاجر اور صنعتکارٹیکس دینے سے گریزاں نہیں بلکہ انکاری ہیں، میاں نوا زشریف کے زمانے میں ٹیکس حکام لبرٹی گئے تو تاجر ان پر پل پڑے۔ اب بھی ٹیکس نیٹ سے بچنے کے لئے تاجروں نے تین بار ہڑتال کر کے حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ حکومت کے پاس اس قدر نفری نہیں کہ ایک ایک دکان اور ایک ایک کارخانے کے دروازے پر پہرہ دے سکے۔ اسی لئے یہ طبقات ٹیکس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں باقی کی کسر ہمارا کرپٹ نظام نکال دیتا ہے اور اس راستے سے بھی دولت مند طبقہ ٹیکس سے بچ جاتا ہے۔ تاجروں صنعتکاروں اور ٹیکس حکام کی عیش و عشرت کی زندگی دیکھ کر صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ سب ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی ملک کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ وہاں سیاسی اور حکومتی استحکام ہو اور ترقیاتی منصوبے تسلسل کے ساتھ بلا رکاوٹ جاری رہیں۔ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ یہاں آج تک کسی وزیر اعظم کو اپنی ٹرم مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سیاسی اور حکومتی انتظار اور طوائف الملوکی کی تو بات ہی کیا کریں کہ ا سکے سوا ہم نے کچھ دیکھا تک نہیں۔ ہمارے حکمران ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کی باتیں توکرتے رہے۔ لاہورا ور کراچی کو پیرس بنانے کے دعوے بھی ہوئے مگر انہوں نے لندن میں فلیٹ بنائے اور غیر ملکی بنکوں میں بیلنس بڑھایا۔ ہم بات کرتے ہیں سنگا پور کی اور ملائیشیا کی مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان ملکوں پر لی کوان یو اور مہاتیر محمد برس ہا برس تک حکومت کرتے رہیں۔ ملائیشیا تو مہاتیر کی طویل حکومت کے باوجود کرپشن کا گڑھ بن گیا ہے اورجہاں تک ایشین ٹائیگر کا سوال ہے تو تھائی لینڈ اورسویت نام بھی اس دوڑ میں شریک ہیں جبکہ ان ملکوں کو امریکہ کی مار پڑتی رہی۔ اور ان کی زمین بمباری سے سیاہ ہو گئی مگر ان ملکوں میں سیاسی استحکام رنگ لا رہا ہے۔

ہماری پارلیمنٹ میں گزشتہ روز مہنگائی اور معاشی حال پر بحث ہونا تھی مگر کج بحثی جاری رہی۔ ایک حکومتی وزیر نے توجہ بھی دلائی کہ خوش حالی کی توقع تب کی جا سکتی ہے جب کوئی حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف وہ اپوزیشن لیڈر لٹھ لے کر کھڑے ہو گئے ہیں جو پینتیس بلکہ چالیس برس سے اقتدار میں ہیں۔ جو روٹی کپڑے اور مکا ن کے وعدوں پر لوگوں کو ٹرخاتے رہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی الا ماشاللہ ہی اقتدار سے باہر رہتی ہے۔ اب بھی دس برس سے حکومت کر رہی ہے۔ ن لیگ نے بھی دس برس تک پنجاب میں حکومت کی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ملک اور عوام کو دیرپا خوشحالی اور معاشی استحکام نہیں دے سکا۔ یہاں تو وہی حکومت کام کر سکتی ہے جسے لوٹ کھسوٹ کا شوق نہ ہو اور جو عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ عمران خان کو کوئی کرپٹ نہیں کہ سکتا مگر اپوزیشن چاہتی ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں جمے اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ اپوزیشن کے بچھائے ہوئے کانٹے بھی عمران صاف کرے۔ ماضی کے قرضے بھی ادا کرے اور عوام کی زندگی بھی بدلے۔ یہ سب چشم زدن میں تو نہیں ہو سکتا۔ ہونے کو سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اسکے لئے وقت چاہئے۔ عمران نے ریاست مدینہ کی بات کی ہے مگر ریاست مدینہ ایک رات یا ایک دن میں کھڑی نہیں ہوئی۔ اس پر تئیس برس لگے اور پھر چاروں خلفا نے بھی اپنا کردارا دا کیا۔ ہم ان کی خاک کے برابر نہیں ہیں مگر ہمیں کوشش تو کر دیکھنی چاہئے۔ نیت نیک ہو اور ٹیم دیندارا ور محنتی اور لگن والی ہو تو نتائج آج بھی نکل سکتے ہیں دنیا میں اچھے حکمرانوں کی کمی نہیں، ہم نے ریاست مدینہ کو ماڈل بنایا ہے تو خدا ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے۔

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra