Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Corona Teston Mein Ghaltion Ki Bharmaar

Corona Teston Mein Ghaltion Ki Bharmaar

کورونا ٹیسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار

کیا ہمارے ہاں پازیٹو مریض واقعی پازیٹو اور نیگیٹو افراد واقعی نیگیٹو ہیں؟ پہلے تو سیمپل سائز پر سوال اٹھ رہے تھے اور اعتراض ہو رہا تھا کہ بہت کم لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اب ٹیسٹنگ کوالٹی اورغلط نتائج بہت سے سوالات کی زد میں ہیں۔ پہلے تو یہ جانئیے کہ پازیٹو سیمپل نیگیٹو کیسے آتا ہے اور نیگیٹوسیمپل پازیٹو کیسے ہو جاتا ہے۔

ٹیسٹ پرفارم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضرورت ہوتی ہے ایک صاف ستھرے ماحول کی۔ ایک ایسا ماحول جہاں نیگیٹو سیمپل پازیٹو پر اور پازیٹو سیمپل نیگیٹو پر اثر انداز نہ ہو سکے، یہی سب سے مشکل کام ہے۔ خاص طور پر جب زیادہ کام کا دبائو ہو، ہزاروں کی تعداد میں روزانہ ٹیسٹ کرنے ہوں، عملہ تربیت یافتہ نہ ہو، ایسے میں امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ ماحول صاف ستھرا نہیں رہے گا اور لیب (Contaminated) یا آلودہ ہو جائے گی جس کے نتیجے میں نیگیٹو اور پازیٹو سیمپل گڈ مڈ ہو جانے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں نتائج سو فیصد درست نہیں رہتے۔

پہلے تو یہ دیکھیے کہ ایک پازیٹو سیمپل نیگیٹو کیسے آتا ہے۔ کورونا کے ٹیسٹ کے لیے سیمپل لینا عام ٹیسٹ کے لیے سیمپل لینے سے مختلف ہے۔ اگرسیمپل درست طریقے سے نہیں لیا گیا اور اس کے سائز کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں کی سکی تو وہ سیمپل مثبت ہونے کے باوجود مثبت نہیں آئے گا۔ چلیں فرض کریں کہ سیمپل صحیح طریقے سے حاصل کر لیا گیا ہے، اب اگلے مرحلے میں اس سیمپل کا RNA الگ کیا جاتا ہے جسے "نیو کلیئک ایسڈ آئیسو لیشن "کہتے ہیں۔ اس کام کے لیے ایک تربیت یافتہ مالیکیولر بائیولوجسٹ یاوائرولوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام نہایت مہارت سے سرانجام دینا ہوتا ہے۔ اگرعملے کے غیر تربیت یافتہ ہونے یا کسی بھی اور وجہ سے سیمپل کا RNA حاصل نہیں کیا جا سکا تو اگلا مرحلہ جو PCRمشین پر مکمل ہونا ہے وہ کبھی درست نتیجہ دے ہی نہیں سکتا۔ اگر تینوں مراحل میں سے کسی بھی ایک مرحلے پر ٹیسٹ پرفارم کرنے والے سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو ٹیسٹ کرنے کے اس پورے عمل کو دوہرایا جانا چاہیے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کام کے زیادہ دبائو کی وجہ سے کوئی یہ زحمت گوارا نہیں کرتا اور جو بھی نتیجہ سامنے آ رہا ہے اسے رپورٹ میں لکھ کر بھجوا دیا جاتاہے۔

پچھلے دنوں میں ہوا یہ ہے کہ ٹیسٹنگ کا کام کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر "واک اِن" انٹرویوز کے ذریعے چھ مہینے کے کنٹریکٹ پر ایسے سٹاف کو بھرتی کیا گیا ہے جن کا تربیت یافتہ ہونا یقینی نہیں ہے۔ لہذا وہ ٹیسٹ تو پرفارم کر رہے ہیں مگر سو فیصد درست نتائج مہیا نہیں کر رہے۔ ایسا سٹاف جو ایک تو تربیت یافتہ نہیں، دوسرا اسے صرف چھے مہینے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے، تیسرا ہنگامی حالات کی وجہ سے اس کے لیے جواب دہی کا موثر نظام موجود نہیں، ایسے میں نتائج کے درست آنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں جو کہ ہو رہا ہے۔ اب ہو گا کیا، ایک کورونا مثبت شخص منفی قرار دیے جانے کے باعث گھر چلا جائے گا، احتیاطی تدابر اختیار نہیں کرے گا اور مزید لوگوں کو کورونا کا شکار کرنے کا باعث بنے گا۔

اب آئیے دوسرے آپشن کی طرف کہ منفی سیمپل مثبت کیسے آتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان موجود رہتا ہے کہ جس ماحول میں ٹیسٹ پرفارم ہو رہے ہوں وہ مسلسل ٹیسٹنگ کے باعث Contaminate یا آلودہ ہو چکا ہو۔ سیمپلز گڈ مڈ ہو گئے ہوں، مشینیں آلودہ ہو چکی ہوں اور ان مشینوں کو مثبت اور منفی کی تمیز نہ رہی ہو۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کسی منفی ٹیسٹ کو پرفارم کرتے ہوئے غلطی سے کسی مثبت سیمپل والے شخص کی ٹپ یا اوزار منفی سیمپل کو چھو جانے سے نتیجہ مثبت ہو جائے۔ گویا سیمپلز کے ایک Batch کو پرفارم کرنے کے بعد بائیو سیفٹی سٹینڈرڈز استعمال کرتے ہوئے لیب کو صاف ستھرا بنایا جانا ضروری ہے ورنہ چھیانوے سیمپلز پر مشتمل ایک پورے کا پورا Batch خراب ہو جائے گا۔ پچھلے دنوں میں ایسا کئی لوگوں کے ساتھ ہوا کہ ٹیسٹ مثبت آنے پرانہیں گھر سے اٹھا کر لے گئے اور آئسولیشن سنٹر منتقل کر دیا لیکن اسی دن اور اگلے دن ٹیسٹ دوہرانے سے نتیجہ منفی آ گیا۔ لیکن اس میں تین سے چار دن کا وقت لگ گیا۔ اب اگر ایک صحت مند شخص کو غلط نتیجے کی بنیاد پر اٹھا کر لے جائیں گے اور اسے اس ماحول میں ڈال دیا جائے گا جہاں اسے کورونا کا شکار ہو جانے کا خدشہ ہے تو دیکھیے کہ ٹیسٹ کی غلطی ایک صحت مند شخص کو کورونا سے متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ بھی اہم ہے کہ ٹیسٹ پرفارم کرنے والی کٹس کا معیار کیساہے۔ اگر ان کٹس کا معیار اچھا نہیں ہے تو مثبت سیمپلز منفی آ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں منفی سیمپلز مثبت نہیں آ سکتے۔ ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لیب کا ماحول آلودہ ہو یا ٹیسٹ پرفارم کرنے والاشخص تربیت یافتہ نہ ہو یا اس سے غلطی سر زد ہو جائے۔ حالیہ دنوں میں منفی لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ غلطی کرنے والا سٹاف اپنی غلطی کو چھپا کر نتیجہ جاری کر رہا ہے، مریض کا سیمپل دوبارہ حاصل کرنے یا پہلے سے حاصل کیے گئے سیمپل پر دوبارہ RNA الگ کرنے کا تردد نہیں کر رہا اور غلط سلط نتیجہ جاری کر رہاہے۔

پچھلے دنوں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے جو اگر مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیں بھی تو اپنی یونیورسٹیز کی لیب میں ان کٹس کے ساتھ ایسے ٹیسٹ پرفارم کر کے نہیں آئے، یہاں تک کہ انہیں تو پی پی ای کے درست استعمال کی تربیت بھی حاصل نہیں ایسے میں ان افراد سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ کورونا مریضوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کیے جائیں بلکہ یہ بھی نہایت اہم ہے کہ صحیح اور درست نتائج جاری کیے جائیں ورنہ یہ اقدام کورونا کے پھیلائو کا سبب بنے گا۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar