Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Builder Mafia Aur Corrupt Siasi Ashrafia

Builder Mafia Aur Corrupt Siasi Ashrafia

بلڈر مافیا اور کرپٹ سیاسی اشرافیہ

یہ ایک مافیا ہے، کراچی کے درجنوں مافیاز میں سے ایک۔ اسے بلڈر مافیا کہتے ہیں۔ بلڈر مافیا اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کی ضمن میں اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، سیاستدانوں کے بغیر یہ دھندا نہیں ہو سکتااور کاروبارِ سیاست بھی کالے دھن کے بغیر کہاں چلتا ہے۔ نسلہ ٹاور کے مکینوں سے پوچھا گیا کیا آپ کے علم میں نہ تھا کہ یہ پلازہ غیر قانونی ہے جواب ملا ہم سب پڑھے لکھے لوگ ہیں، چالیس کے چالیس NOCs دیکھنے اور پلازے کے مکمل طور پر قانونی ہونے کا یقین کرنے کے بعد عمر بھر کی جمع پونجی لگانے کا فیصلہ کیا۔ دو تین کروڑ کوئی یونہی جھونک دیتا ہے کیا؟

مکینوں سے سوال کرنے سے پہلے یہ سوال کے الیکٹرک سے پوچھنا چاہیے کہ غیر قانونی پلازے کو بجلی فراہم کرنے کا مجرمانہ فیصلہ کس کے دستخط سے ہوا۔ یہ سوال واٹر بورڈ سے پوچھنا چاہیے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والے پلازے کو پانی کی سپلائی کا فیصلہ کس کے کہنے پر ہوا، فائل پر کس کے دستخط موجود ہیں۔ غیر قانونی کام کرنے کے عوض متعلقہ افسر نے کتنی رشوت وصول کی یا کس کے سیاسی دبائو میں آ کر دستخط کیے؟ اسی طرح محکمہ سوئی گیس نے کیسے اپنے میٹرز اس پلازے میں آ کر نصب کر دیے۔ سب کے سب ان پڑھ ہیں کیا؟ اتنے بڑے بڑے اداروں کو معلوم نہیں کہ پلازہ غیر قانونی طور پر تعمیر ہوا ہے؟ کیا سب کے سب مال بنانے میں لگے ہیں؟ نسلہ ٹاور کے مکینوں کا کیا قصور ہے۔

آج انہیں معاوضہ ادا کیے بغیر بے دخل کیا جا رہا ہے۔ جس کسی نے عدالت کے حکم پر بلڈر کی جائیدادیں ضبط کر کے متاثرین کو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ یقینا بلڈر کی جیب میں ہوگا۔ دو چار کروڑ روپے اِدھر سے اُدھر ہوں گے اور وہی افسر بلڈر کو بچ نکلنے کے راستے سجھا رہا ہو گا۔ کیا یہاں کوئی نظام ہے جو مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو؟ سب طاقتور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مظلوم کی جیب خالی ہے اور نصیب سیاہ۔

سندھ نیچے سے اوپر کرپشن میں لتھڑا پڑاہے۔ ایک ایک ادارہ، ایک ایک محکمہ، بیشتر افسران اور سیاستدان، غرض ہر کسی نے ملکِ پاکستان کو باپ کا مال سمجھ رکھا ہے۔ ایک بلڈر صاحب کے جہاں جی میں آئے عمارت کھڑی کر لے، جتنی اونچی چاہے بنا لے، قانون کا کیا ہے، جیب میں پیسے ہونے چاہییں۔ فائل کو پہیے لگائیں، خود بخود ایک سے دوسرے محکمے میں دوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے بعداخبار اور ٹی وی میں غیر قانونی پلازے کی اشتہاری مہم چلے گی، کوئی نہیں روکے گا۔ نامور ٹی وی اداکار شہر کی مرکزی شاہراہ پر خوابوں کا محل تعمیر کراتے نظر آئیں گے، کوئی نہیں پوچھے گا۔ سوال یہ ہے کہ بلڈر کو اٹھا کر جیل میں کیوں نہ ڈالا گیا ہے؟ کیا اس کا فعل مجرمانہ نہیں تھا؟ غیر قانونی تعمیرات کو این او سی دینے والوں کو بے رحمی سے سلاخوں کے پیچھے کیوں نہ پھینک دیا گیا؟ کیا اُنہوں نے جرم کا ارتکاب نہ کیا تھا؟ ان محکموں کی کرپشن میں حصے دار سیاستدان عزت دار شہری بن کر گھوم رہے ہیں کہ جیسے سسٹم کو شفاف رکھنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔

کسی نے سوچا ہے کہ عمر بھر کی جمع پونجی لٹا کر کرائے کا گھر ڈھونڈتے نسلہ ٹاور کے مکینوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟ عین اُس وقت جب اس بد نصیب ٹاور میں رہنے والے بچے بجلی، پانی اور گیس کٹ جانے کے بعد حسرت کی تصویر بنے گھر نہ ٹوٹنے کی آخری امید لیے اندھیرے میں پانی کے بغیر رات گزار رہے ہوں گے، اُس وقت بلڈر اور اس کے گروہ میں شریک تمام کارندے اپنے اپنے حرام کی کمائی سے تعمیر ہونے والے پُر تعیش گھروں میں سکون کی نیند سو رہے ہوں گے۔

لاہور میں کئی ایسی آبادیاں ہیں جنہیں عرف عام میں قبضے کی زمین کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زمین ہے جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے ہاتھوں بکتی آ رہی ہے لیکن سرکار نے قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس کے مالکانہ حقوق دیے نہ ہی اپنا قبضہ جمایا۔ ان میں کئی ایسی سوسائٹیز ہیں جہاں اسی فیصد سے زیادہ گھر تعمیر ہو چکے ہیں۔ بڑے بڑے شاندار گھروں کی نہ تو کسی کے پاس رجسٹریاں ہیں نہ ہی مالکانہ حقوق، لیکن گھر روزانہ تعمیر ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ سرکار نے قبضے کی ان جگہوں پر پانی اور بجلی جیسی سہولیات بھی فراہم کر رکھی ہیں۔

ایسے ہی کچھ رہائشی علاقے سہولیات کم ہونے کے باعث سستے ہیں۔ غریب لوگ آٹھ دس لاکھ روپے میں تین مرلے کا پلاٹ اسٹامپ پیپر پہ خرید لیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ تعمیر شروع کرتے ہیں پٹوار خانے سے دو تین"کن ٹٹے"جو سرکاری ملازم نہیں ہوتے اور پٹواری کے ذاتی ملاز م ہوتے ہیں، پٹواری صاحب کا پیغام لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ سرکاری جگہ ہے یہاں آپ گھر نہیں بنا سکتے۔ گھر بنانے کا خواہش مند اگر پہلے سے تعمیر شدہ گھروں کی طرف اشارہ کرے تو پھر اُسے راستہ دکھایا جاتا ہے۔

تین سال پہلے پچھلی حکومت میں پانچ ہزار روپے فی مرلہ لے کر گھر بنانے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔ تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی قبضہ مافیا کے خلاف بڑا آپریشن شروع کیا تو ایسے علاقوں میں بھی تعمیرات مشکل ہو گئیں جس سے رشوت کے ریٹس میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ اب تو مہنگائی بھی بہت ہو گئی ہے لہذا اب تعمیر کی اجازت کے عوض 30 ہزار روپے فی مرلے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ بھائو تائو کر کے 20 سے 25 ہزار روپے فی مرلہ میں معاملات طے ہوتے ہیں۔ جو کوئی زبردستی کم پیسے ادا کر کے اجازت لینا چاہے یا بحث مباحثہ کر کے رشوت کی پوری رقم دیے بغیر تعمیر شروع کر لے توایک ہفتے بعد اس کی دیواریں غیر قانونی قرار دے کر زمیں بوس کر دی جاتی ہیں۔

اب نئے گھروں کی تعمیر روکنے والے ان عقل کے اندھوں کو کوئی بتائے کہ پہلے سے تعمیر شدہ گھر خود انہی کے خلاف چارج شیٹ ہیں۔ اگر وہ یہاں ناجائز گھروں کی تعمیر روکنے کے ذمہ دار ہیں تو اتنے گھر تعمیر ہونے کے جوابدہ بھی وہی ہیں۔ مگر کون یہاں کسی سے حساب مانگنے والا ہے، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ سندھ میں تو مان لیا مافیاز اور سیاست گڈ مڈ ہو چکے ہیں مگر پنجاب میں تو "صاف چلی، شفاف چلی" کی حکومت ہے۔ یہاں پہ اندھیر کیوں مچا ہے۔ مان لیا کہ ہزاروں کی تعداد میں غریبوں کے گھر گرانا حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ تو پھر ان آبادیوں کو ریگولرائز ہی کر دیا جائے تا کہ رشوت کا چلن ختم ہو اور ٹیکس کی مد میں حکومت کے خزانے کو بھی فائدہ ہو ورنہ رشوت مافیا یونہی سرگرم رہے گا۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal