Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Alchemist

Alchemist

الکیمسٹ

آفاقی زبان کے وجود پر یقین، غیبی اشاروں کی سمجھ، خوابوں کی تعبیر پانے کی خواہش، خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش، مطالعہ کی عادت، جد و جہد مسلسل اور خود پر کامل یقین۔ یہ کہانی ہے الکیمسٹ کی۔ پائولو کوئیلہو کا ناول الکیمسٹ بہت پہلے پڑھا، پچھلے چار دن سے گھر میں رہنے کے باعث اُن کتابوں کی دوبارہ ورق گردانی کی جو بہت پہلے پڑھی تھیں اور دماغ سے محو ہو رہی تھیں۔ انہی میں پائولو کوئیلہو کا شہر ہ آفاق ناول الکیمسٹ بھی تھا۔

الکیمسٹ کی کہانی ایک گڈریے کے گرد گھومتی ہے جس کا نام سینٹیاگو ہے۔ سینٹیاگو کے دو شوق ہیں، مسلسل سفر میں رہنا اور کتابوں کا مطالعہ کرنا۔ سپین کے ایک دیہات میں بھیڑ چراتے چراتے ایک روز اس نے تھک ہارکرپرانے چرچ کی تباہ شدہ عمارت میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ بھیڑوں کو اس نے چرچ کے احاطے میں بند کیا اور خود ایک انجیر کے درخت کے نیچے کتاب پڑھنے لگا، پڑھتے پڑھتے جب نیند نے آ لیا تو اسی کتاب کا سرہانہ بنا کر وہیں سو رہا۔ اس رات اس نے خواب میں اہرام مصر کے نیچے دبے ہوئے خزانے کے بارے میں پھر وہی خواب دیکھا جو وہ اکثر دیکھا کرتا تھا۔ بہت سے لوگوں کی طرح خواب کو جھٹک دینا اور محض خواب سمجھ کر نظر انداز کر دینا سینٹیاگو کو گوارا نہ تھا۔ اگلے ہی روز وہ خواب کی تعبیر بتانے والی ایک بڑھیا کے پاس گیا اور تعبیرچاہی۔ بڑھیاخزانے کے دسویں حصے کے بدلے تعبیر بتانے پر رضامندی مند ہو گئی۔ بڑھیانے بتایا کہ اہرام مصر کے نیچے خزانہ دفن ہے تمہیں صحرائوں کو پار کر کے اہرام مصر جانا چاہیے خزانہ مل جائے گا۔ چند ہی دن میں جب لڑکا بھیڑوں کی اون بیچنے کی غرض سے شہر کی جانب گیا تو وہاں اسے ایک بوڑھا شخص ملا جو دیکھنے میں تو خراب حال تھا لیکن خود کو شہزادہ ظاہر کرتے ہوئے اس نے چھوٹے قیمتی پتھر اسے دیے اور تلقین کی کہ بھیڑوں کو فروخت کر کے افریقہ جانے والے بحری جہاز میں بیٹھ جائے اور وہاں سے صحرا عبور کرتے ہوئے اہرام مصر کی طرف سفر کرے۔ لڑکا جو پہلے ہی اپنے خوابوں کی وجہ سے مخمصے میں تھا مگر غیبی اشاروں اور کامیابی کے لیے سفر پہ یقین رکھتا تھا، راضی ہو گیا۔ بھیڑوں کو بیچ کر اس نے معقول رقم حاصل کی اور افریقہ کا سفر اختیارکر لیا۔

افریقہ پہنچنے کے بعدچند اجنبیوں نے بھانپ لیا کہ اس کے پاس بہت سے روپے ہیں، بہلا کر اس سے روپے بٹور لیے اور وہ مزید سفر کے قابل نہ رہا۔ لڑکے نے آگے بڑھنے کی بجائے ارادہ کیا کہ مزدوری کر کے واپسی کے لیے کچھ رقم اکٹھی کرے گا اور اپنی بھیڑوں کے پاس واپس چلا جائے گا۔ لہذا اس نے ایک شیشہ گر کے پاس ملازمت اختیار کر لی اور کہا کہ وہ روزانہ اس کے شیشے صاف کر دیا کرے گا یوں گاہک اس کی طرف متوجہ ہوں گے جس سے اسے کاروبار میں فائدہ ہو گا۔ لڑکے کی محنت سے گاہک اس دکان کی جانب متوجہ ہونے لگے اور دکاندار نے خوب رقم بنانا شروع کر دی۔ لڑکا روز بروز نئے آئیڈیاز لے کر آتا اور دکاندار خوب مال بناتا۔ نو مہینے کے عرصے میں اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو گئی کہ وہ واپس سپین جانے کا ارادہ کرنے لگا۔

ایک بار پھر غیبی اشارے لڑکے کی مدد کو آئے اور دکاندار نے اسے قائل کرلیا کہ ایک کارروان مصر کی جانب جا رہا ہے، اسے چاہیے کہ وہ سپین جانے کے بجائے اس کاررواں کے ساتھ ہو لے اور مصر جا کر اپنا خزانہ تلاش کرے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور صحرا کے طویل اور مشکل سفر پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں اس کی ملاقات ایک انگریز کے ساتھ ہوئی جو ایک ایسے الکیمسٹ یا کیمیا گر کی تلاش میں جا رہا تھا جو دھات کو سونا بنانے کا ہنر جانتا تھا۔ لڑکے کی انگریز کے ساتھ دوستی ہو گئی کہ دونوں اپنے اپنے خوابوں کے لیے محوِ سفر تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھتے تھے لیکن بات سمجھ لیتے تھے کہ یہ فن لڑکے نے بھیڑوں سے سیکھا تھا جو بے زبان ہونے کے باوجود لڑکے کو ساری بات سمجھایا کرتے تھے۔

طویل اور تکلیف دہ سفر میں اس وقت انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ایک جنگ زدہ علاقے سے گزرے۔ قریب ہی ایک نخلستان میں سینٹیاگو کی ملاقات فاطمہ نامی ایک لڑکی سے ہوئی اور اسے اس سے محبت ہو گئی۔ لڑکے نے مزید سفر جاری رکھنے کے بجائے باقی کی زندگی فاطمہ کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا اور سوچا یہی وہ خزانہ ہے جس کی اسے تلاش تھی اور یہ کہ فاطمہ کے بعد اسے کوئی اور خزانہ نہیں چاہیے۔ یہاں اس کی ملاقات اس کیمیسٹ سے ہو گئی جس کا ذکر وہ انگریز سے سنتا آیا تھا۔ اس کیمیا گر نے ایک بار پھر لڑکے کو قائل کیا کہ اسے اہرام مصر تک جانا چاہیے اور خزانہ تلاش کرنا چاہیے۔ کیمیا گرنے اسے کچھ سونا دیا اور خود اس لڑکے کو اہرام مصر کے قریب چھوڑ آیا۔

لڑکے نے اہرام مصر پہنچ کر کھدائی شروع کی، رات بھر کھدائی کے باوجود اسے کچھ نہ ملا۔ تاہم صبح ہونے سے پہلے دو ڈاکو وہاں آ پہنچے اور لڑکے سے سونا چھین کر پوچھنے لگے وہ کیا کھدائی کر رہا ہے۔ لڑکے نے کہا وہ خواب کی تعبیر ڈھونڈنے یہاں آیا ہے اور اسے خزانے کی تلاش ہے۔ ڈاکو ہنسنے لگے، ان میں سے ایک نے کہا بھلا کوئی خواب کے پیچھے بھی اتنا سفر کرتا ہے، اب میں کئی بار خواب دیکھ چکا ہوں کہ سپین میں ایک ٹوٹے ہوئے چرچ کے قریب انجیر کے درخت کے نیچے خزانہ دفن ہے۔ اب میں تھوڑا اس خزانے کو ڈھونڈنے جائوں گا۔ ڈاکو کی یہ بات لڑکے کے لیے ایک اور غیبی اشارہ تھی اسے خزانے کا اصل راز معلوم ہو چکا تھا۔ وہ اسپین واپس گیااور اس چرچ کے قریب اسے خزانہ مل گیا جس کا اس نے اسی جگہ پر خواب دیکھا تھا۔

بظاہر یہ عام سی کہانی ہے مگر اس کہانی میں مصنف نے اپنے کرداروں کے ڈائیلاگز کے ذریعے بے شمار پیغامات دیے ہیں جنہیں اس مختصر تحریر کے احاطے میں لانا ممکن نہیں لیکن آفاقی زبان کا وجود، غیبی اشاروں کی سمجھ، خوابوں کی تعبیر پانے کی خواہش، خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش، مطالعہ کی عادت، مسلسل سفر، جدوجہد اور خود پر کامل یقین، یہی الکیمسٹ کی کہانی ہے جو مشکلات میں گھرے لوگوں کو ہمت ہارنے سے پہلے سینکڑوں مرتبہ قائل کرے گی اور بالآخر خزانہ مل کے رہے گا۔

Check Also

Ye Ik Shajar Ke Jis Pe Na Kanta Na Phool Hai

By Saadia Bashir