Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Teen Talkh Sachaiyan

Teen Talkh Sachaiyan

تین تلخ سچائیاں

دست قدرت نے تمام انسانوں کو مختلف نعمتوں، منفرد صلاحیتوں، ممتاز مہارتوں اور یکتا قابلیتوں سے نواز رکھا ہوتا ہے۔ ان کی کئی اقسام اور شکلیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی اولاد کی نعمت سے سرفراز ہے تو کسی کو رنگ روپ اور حسن و جمال کی دولت سے مالامال کر دیا گیا ہے، کسی کو عزت و افتخار کی مسند توقیر عطا ہوئی تو کوئی ایوان اقتدار و اختیار کی جاہ و حشمت سے نہال، کسی کو معاشی آسودگی اور مال و دولت سے نوازا گیا ہے تو دوسرے کے پاس سماجی مقام و منزلت کی طاقت موجود ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ان تمام پہلوؤں کے ساتھ ساتھ بظاہر سب انعامات و اکرام سے محروم شخص عین ممکن ہے اچھی صحت، ذہنی سکون اور روحانی اطمینان کی نعمت بے پایاں سے نواز دیا گیا ہو۔

دوسری طرف یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاشی خوشحالی اور سماجی مقام و مرتبہ رکھنے والا شخص کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر روحانی سکون کی دولت سے محروم ہو چکا ہو۔ لہٰذا اس عالم آب و گل میں تمام انسانوں میں انعام واکرام کی مختلف شکلیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مدارج اور پیمانے بھی الگ الگ ہیں۔ جن گلابی رخساروں سے ماہتاب بھی روشنی مستعار لیتا تھا اور جس کے چمکتے دمکتے ماتھے پر آفتاب کی کرنیں ماند پڑ جاتیں تھیں ڈھلتی عمر کے گہرے ہوتے سائے اس رخ روشن کی چکا چوند روشنی کو مات دے دیتے ہیں اور حسین و جمیل افراد بھی بالآخر بڑھاپے کی جھریوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

وہ شباب رت کے گلاب لمحوں کو یاد کرکے خزاں رتوں میں رنگ بہار تلاش کرنے کی خو میں لگے رہتے ہیں۔ لہذا بڑھاپا سب سے پہلی تلخ حقیقت ہے جس سے کوئی بھی آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ دوسری کڑوی سچائی بیماری ہے جو بڑھاپے کا انتظار نہیں کرتی اور نہ ہی کسی کے مقام و مرتبہ سے مرعوب ہو تی ہے۔ اگر کسی کو اس امر میں کوئی شک یا ابہام ہو تو وہ ہسپتال کی ایمرجنسی اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ کا چکر لگا لے کہ وہاں نو مولود بچوں سے لیکر جوان بوڑھے مرد و زن سب دست اجل سے زندگی کے ایک ایک پل کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

طبی سائنس و تحقیق کے اعلیٰ مرتبہ کے حامل ڈاکٹرز اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہسپتالوں میں تمام تر مطلوبہ وسائل کی فراہمی کے باوجود جانے کتنے افراد بیماری کے سامنے زندگی کی بازی ہارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تیسرا اور سب سے زیادہ کڑوا سچ موت ہے جو برحق بھی ہے اور اٹل بھی۔ دست اجل نے آج تک کسی کو نہیں بخشا اور اپنے مقررہ وقت، انداز اور مقام پر وہ اپنا وار کرتے ہوئے ہنستے بستے گھرانوں کو ویرانوں میں بدلتی جاتی ہے۔ امیر ترین شخص ہو یا غریب، طاقتور ہو یا بے کس و ناکس، جوان ہو یا بوڑھا سب اس کے سامنے بے بس ہیں۔

بڑھاپے اور بیماری کی صورت میں کچھ نہ کچھ وقت مل جاتا ہے اور افراد ان دونوں عوامل سے نبردآزما ہونے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے ہیں، جتنا ممکن ہو ان سے نپٹنے کے لئے تمام تر وسائل بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں مگر موت اچانک وار کرتی ہے اور بسا اوقات سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہمارے جان سے پیاروں کی راہ عدم روانگی کی کرب ناک خبریں سننے کو ملتی رہتیں ہیں۔ حسین ترین خدو خال سے مالا مال دلنشین چہرے اچانک منوں مٹی تلے خاک نشیں ہو جاتے ہیں اور ہم بھی اتنے ہی بے بس اسی قطار میں کھڑے اپنی باری کے انتظار میں لگ جاتے ہیں جس ہم سے پہلے صدیوں سے لوگ اسی اجنبی دیس کے مسافر ٹھہرنے پر مجبور ہوئے اور پھر ہمیشہ کے لئے وہیں کے ہو رہے۔

زندگی کی ان تلخ سچائیوں سے جڑا فاتح عالم سکندر اعظم سے منسوب یہ واقعہ اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے کافی ہے۔ روایت ہے کہ صرف 32 سال کی عمر میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والا عظیم فاتح سکندر اعظم جب بیماری کے باعث بستر مرگ پر جا پہنچا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو بلا کر وصیت میں تین آخری خواہشات کا اظہار کیا۔ اول، اس نے حکم دیا کہ اس کا جنازہ صرف عصرِ حاضر کے اعلیٰ طبیب ہی اٹھا کر لے قبرستان لے جائیں گے۔ دوئم، اس نے کہا کہ جس راستے سے اس کا جنازہ قبرستان جائے گا اس پر اس کی دولت کے تمام سکے اور اشرفیاں بکھیر دیں جائیں۔ اس نے تیسرا حکم یہ صادر فرمایا کہ اس کے ہاتھ کفن سے باہر رکھے جائیں اور جنازہ لے جاتے ہوئے وہ ہوا میں جھولتے جائیں۔

یقینی طور پر سکندر اعظم کے معتمد جرنیل ان عجیب و غریب احکامات یا خواہشات پہ سخت حیران ہوئے اور ان کی وضاحت چاہی۔ سکندر اعظم نے ان تینوں احکامات کی توجیہات پیش کرتے ہوئے الگ الگ وضاحت پیش کی۔ سب سے پہلی خواہش میں اس نے بہترین طبیبوں کو جنازہ اٹھانے کے لیے اس لئے منتخب کیا تاکہ دنیا جان لے کہ زمانے کے ذہین ترین طبیب بھی موت کے آگے بے بس ہیں اور وہ مل کر بھی اسے موت کی بانہوں میں جانے سے نہیں روک سکے۔ اسی طرح قبرستان کے راستے پر وہ اپنی دولت اس لیے بکھیرنا چاہتا تھا تاکہ ہر کوئی یہ جان لے کہ تمام تر مالی وسائل کی موجودگی بھی بیماری کا علاج نہیں ڈھونڈ سکی اور نہ موت کا راستہ روک پائی ہے۔

دنیا کی کمائی ہوئی دولت و ثروت دنیا میں ہی رہ جاتی ہے اور کوئی بھی اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتا۔ تیسری خواہش میں سکندر اعظم نے ہاتھ کفن سے باہر رکھنے کی تاکید اس لئے کی تاکہ لوگ جان سکیں کہ ہم خالی ہاتھ اس دنیا میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔ لہٰذا بظاہر مختلف رنگ و نسل، معاشی ترقی اور سماجی مقام و مرتبہ کے حامل دنیا بھر کے تمام افراد ان تینوں تلخ سچائیوں کے سامنے برابر ہیں۔ جہاں طاقت، عزت، دولت، وجاہت اور شہرت سمیت تمام دنیاوی پیمانے الگ الگ ہیں وہاں بڑھاپا، بیماری اور موت کے تینوں تلخ سچائیاں سب انسانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے انہیں یکساں طور پر بے بس کر دیتیں ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan