تاریخ کا بوجھ
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب مغلیہ سلطنت کے فرمانروا اور شہنشاہ معظم شاہ جہان محبوب رفیقہ حیات کے لئے اپنی بے پناہ محبت کو لازوال بنانے کے لئے تمام تر وقت، وسائل اور توجہ مرکوز کرکے آگرہ میں ایک عالیشان محل تعمیر کر رہا تھا اسی وقت برطانیہ میں آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا، سب تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی۔ ہاں البتہ چند تلخ حقائق کو ضرور زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک صرف کیمرج یونیورسٹی ایک سو اسی نوبل پرائز ونرز پیدا کر چکی ہے جبکہ آکسفورڈ نے سینکڑوں کی تعداد میں مختلف ممالک کے وزراء، وزرائے اعظم، صدور مملکت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات پیدا کی ہیں۔
آج بھی دنیا بھر کی تعلیمی درسگاہوں میں پہلی یا دوسری پوزیشن پر انہیں دو یونیورسٹیوں کے ما بین ہر سال مقابلہ ہوتا ہے۔ برطانیہ کی ایک سو سے زائد عالمی معیار کی حامل یونیورسٹیاں ہر سال پوری دنیا سے ہزاروں طلباء اور طالبات کی اولین ترجیح بن کر انہیں تعلیم و تحقیق کے میدان میں سرخرو کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف مغلیہ سلطنت میں شہنشاہی طرز حکمرانی کے سارے انداز واطوار نرالے تھے۔ بادشاہ سلامت کی ہمہ وقت خدمت اور تابعداری کو یقینی بنانے کے لئے شاہی محل میں لاتعداد کنیزوں اور درباری حضرات معمور ہوتے تھے جن کا کام محض بادشاہ سلامت کی جی حضوری، خوشامد اور خوشنودی کو یقینی بنانا تھا۔
شہنشاہ وقت کا فرمان ہی قانون کا درجہ رکھتا تھا اور ساری رعایا پر اس کی تعمیل واجب ہوا کرتی تھی۔ کسی کی کیا مجال کہ حکم عدولی کا تصور بھی کر سکے۔ لہذا درباریوں میں ہمہ وقت چاپلوسی اور خوشامد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مقابلہ جاری رہتا اور بادشاہ سلامت کی نظر التفات بھی سب سے زیادہ خوشامدی درباری ہی پر ہوتی۔ دلیل، منطق، اختلاف رائے، بحث، مکالمہ اور اجتماعی سوچ کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا اور نہ ہی بادشاہ سلامت استدلال کی کسی بھی شکل کو سند قبولیت عطا کرنے کے خواہاں تھے۔
جبر اور ذہنی گھٹن کے اس ماحول میں فکری جمود لازم تھا جس کے نتیجے میں تہذیب وتمدن کا ارتقاء مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ لودھی خاندان کو شکست سے دوچار کرنے والے اور مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کے جانشین ہمایوں کو افیون کا نشہ لے بیٹھا تو شہنشاہ اکبر کو شادیوں سے فرصت نہ مل سکی اور اگر کچھ وقت میسر آیا تو اسے دین الہی کی داغ بیل ڈالنے میں صرف کردیا۔ شاہجہان نے صرف فن تعمیرات میں دلچسی دکھائی جن میں سب سے نمایاں تاج محل آگرہ ٹھہرا جو اس نے اپنے دل کی رانی ممتاز بیگم سے اپنی بے پناہ محبت کو امر کرنے کے تعمیر کروایا تھا۔
منشیات کا استعمال، محلاتی سازشیں، اقتدار کی حرص و ہوس، نفسانی خواہشات کی تسکین اور تخت و تاج کے لئے خاندانی اختلاف مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب بن گئے تو دوسری طرف تاج برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں اپنی ریشہ دوانیاں بڑھانا شروع کیں، آہستہ آہستہ برصغیر پاک و ہند کی معیشت اور معاشرت کے ساتھ ساتھ مقامی سیاست پر بھی اپنے پنجے گاڑنے کا عمل جاری وساری رکھا۔
فکری جمود کا شکار اور جدید سائنسی علوم سے عاری مسلمان قیادت تاج برطانیہ کا مقابلہ نہ کر سکی اور یوں اس کے آخری فرمانروا بہادرشاہ ظفر کو 1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد گرفتار کرکے رنگون بجھوا دیا گیا۔ مسلمانوں کا اقتدار جاتا رہا اور پوری سلطنت تاج برطانیہ کے زیراثر آگئی۔ عیش و عشرت میں مست مغل بادشاہوں کے ہاتھوں پوری سلطنت اس طرح بکھر گئی جیسے مٹھی میں سے ریت سرک جاتی ہے۔
تعلیمی پسماندگی اور جدید سائنسی علوم کے فقدان کے باعث بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی بدحالی کوئی اچنبے کی بات نہ تھی۔ یہی وجہ کہ سرسید احمد خان نے مسلمانان ہند میں تعلیم کی ضروت پر زور دیا اور تحریک علیگڑھ کی بنیاد رکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے دینی محاذ پر مورچہ بندی کی اور اسلام کی اصل روح کی بحالی کے لئے فقہ وحدیث کے کلیدی کردار کو اجاگر کیا۔ دوسری طرف شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانوں کی فکری اصلاح اور سیاسی شعور کو اپنی شاعری میں مرکزی جگہ دی اور یوں انکے لئے سب سے پہلے ایک الگ مملکت کا خواب دیکھا۔
انہوں نے 1930 میں اپنے تاریخی خطبہ الہ آباد میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے اک علیحدہ ریاست کے قیام کا نقشہ پیش کیا جس کے حصول کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں بالآخر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور 14اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر اک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے نمودار ہوا۔
تحریک آزادی کے اک طویل، صبر آزما اور تکلیف دہ سفر کے باوجود بطور اک آزاد قوم گزشتہ ستتر برسوں میں ہمارے قومی مزاج میں سے مغل بادشاہت کا عنصر نہیں نکل سکا۔ آج بھی ہم سب تاریخ کا یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ جدید علوم اور سائنسی تحقیق ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ مکالمہ اور اختلاف رائے ناپید ہے۔ ہاں مگر ہر شخص خود کوظل سبحانی سمجھتا ہے، پروٹوکول کا متمنی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بل جمع کروانے کے لئے بنک کی کھڑکی کی بجائے بنک مینجر سے چائے کے کپ کی توقع کی جاتی ہے اور بل کی ادائیگی اس کی میز پر ہی کروانے کے لئے کہا جاتا ہے۔ بظاہر بے روزگاری اور فاقوں کا راگ الاپا جاتا ہے مگر کام کے لئے مزدور چراغ رخ زیبا لے کر بھی نہیں ملتے۔
کسی سرکاری دفتر چلے جائیں سب سے پہلے گیٹ پر موجود عملہ وہاں اپنی اجارہ داری قائم کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد متعلقہ کلرک کی حاکمیت کی عملداری شروع ہو جاتی ہے اور اگر آپ نے اس کی شان اقدس میں کوئی گستاخی کر لی تو پھر اس کے غیظ و غضب سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ تھانے کا سنتری اور پٹواری کا چھوٹا منشی اپنے رعب ودبدبہ اور سرکاری جاہ و جلال کا استعارہ ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ آئے روز دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے عہدے بڑے ہوتے جائیں ویسے ویسے مغلیہ بادشاہت کے اندازواطوار کے سارے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں اور تاریخ کا یہ بوجھ اور زیادہ بڑھ جاتاہے۔