سیاسی بلوغت

صبح سویرے میں حسب معمول تیاری میں مصروف تھا کہ مجھے بذریعہ ٹیلیفون ایس ایس پی صاحب کے سٹاف نے فوراً دفتر پہنچنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ پیشگوئی بھی کر ڈالی کہ لگتا ہے کہ صاحب آپ کو دوبارہ کسی تھانہ میں ایس ایچ او تعینات کرنے والے ہیں۔ اس سے قبل سی ایس ایس کے تحریری امتحان سے فراغت کے بعد میں آفیسر مہتمم تھانہ صدر فیصل آباد اپنے فرائض سر انجام دے چکا تھا اور ایس ایس پی صاحب میری کارکردگی سے خاصے مطمئن تھے۔
میں پولیس لائن میں واقع ریسٹ ہاؤس سے اگلے دس پندرہ منٹ میں دفتر آن پہنچا تو پی ایس او میرے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان دنوں جنرل پرویز مشرف نے ملک میں لوکل گورنمنٹ کا ایک نیا نظام متعارف کرایا تھا جس میں یونین کونسل سطح پر ناظم نے براہ راست الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر ضلع ناظم کے انتخاب میں حصہ لینا تھا۔ اسی سلسلے میں ملک بھر میں لوکل باڈیز انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا اور فیصل آباد میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور دھڑوں نے اپنے اپنے گھوڑے میدان میں اتار دیئے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی ایس ایس پی صاحب نے فیصل آباد شہر کے ایک حساس تھانہ کی سابقہ سیاسی تاریخ اور بالخصوص الیکشن والے دن ہونے والے خون خرابے اور قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کی نشاندھی کی اور اسی تھانہ میں بطور ایس ایچ او میری تعیناتی کا پسں منظر سمجھانے لگے۔ انہوں نے امن عامہ یقینی بنانے اور متحارب فریقین اور ان کے امیدواران کو پر امن رکھنے کے لئے مجھے ضروری ہدایات دیں اور فوری طور پر تھانہ پہنچ کر چارج سنبھالنے کا حکم دیا۔
میں نے تھانہ پہنچ کر جملہ سٹاف سے پہلی ملاقات میں اپنی ترجیحات پر تفصیلی گفتگو کی اور مقامی انتخابات اور اس ضمن میں ممکنہ خدشات سے متعلق تھانے میں تعینات پرانے ملازمین سے تجاویز و آراء طلب کیں۔ اس تھانے کی حدود میں ایک ہی بڑی قومی جماعت کے دو طاقتور دھڑوں کے درمیان روائتی پنجہ آزمائی شروع ہو چکی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کے مد مقابل اپنے مضبوط ترین امیدوار کھڑے کر رکھے تھے۔ میں نے تمام امیدواروں کو اگلے ہی روز تھانہ میں طلب کیا اور انہیں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر مکمل طور پر پابند رکھنے کے لئے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی تلقین کی اور ساتھ ہی انہیں باور کرایا کہ خلاف ورزی پر ان کے خلاف بلا تفریق قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اپنی ٹیم کی مشاورت سے میں نے الیکشن ڈے کو مکمل طور پر پر امن رکھنے کے لئے ایک جامع پلان ترتیب دیا اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ایمان دار اور پیشہ ورانہ طور پر اچھی شہرت کے حامل افسران اور جوانوں پر مشتمل مختلف ٹیمیں تشکیل دیں اور خود ان کی نگرانی کرتا رہا۔ اب چونکہ دو معروف متحارب امیدوار اس دنیا میں نہیں رہے لہٰذا یہ لکھنا عبث ہے کہ کس نے کتنی خلاف ورزی کی اور پھر اسے کس طرح تادیبی کاروائی کا سامنا پڑا۔ ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ الیکشن مکمل طور پر خوش اسلوبی سے انجام پایا اور جس علاقے میں ہر الیکشن کے دوران تین چار قتل ہوتے آئے تھے وہاں بعض مقامات پر بات محض ہاتھا پائی تک ہی محدود رہی کیونکہ اس کے فوراً بعد وہ قانون کے محفوظ ہاتھوں میں تھے۔ الیکشن کے اگلے روز ہی مجھے ایس ایس پی صاحب دفتر بلا کر دس ہزار روپے انعام کے ساتھ ساتھ تعریفی سند سے نوازا۔
یہ تمہید میں نے پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کئی ممالک میں مروجہ سیاسی نظام اور اس کے ساتھ جڑے تناؤ، مخالفت، مخاصمت اور دشمنی تک پھیلے قتل و غارتگری کے کلچر کو اجاگر کرنے کے لئے باندھی ہے جس نے جانے کتنے سہاگ اجاڑ رکھے ہیں۔ سیاسی عداوت کے ناسور نے خاندانوں، دوستوں اور رفقاء کار کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور اس مزید گہری ہوتی تقسیم نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب یہ لڑائی گلی محلے کے خون خرابے سے بڑھتی ہوئی سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فیس بک پر اور واٹس ایپ گروپوں میں سارا دن مختلف جماعتوں کے متوالوں کے درمیان ہونے والی پانی پت کی یہ لڑائی ماحول کو پراگندہ کرکے مسلسل تناؤ کا شکار رکھتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اختلاف رائے کو ذاتی عناد میں بدلنے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں ہیں۔ مقامی سطح کی توں تکار سے بڑھتی ہوئی اسی سیاسی عداوت نے ماضی میں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے قومی سطح کے کئی قائدین کو موت کی بند گلی تک پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔
اسی تناظر میں امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے میئر کے لئے ہونے والے حالیہ انتخاب اور اس مہم کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مسلمان نوجوان امیدوار ظہران ممدانی کے مابین ہونے والی لفظی جنگ کو ذہن میں رکھیں کہ کس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے سخت گیر موقف رکھتے ہوئے ڈٹے رہے۔ دوسری طرف دونوں مخالف امیدوار اینڈریو کومو اور ظہران ممدانی نے ایک دوسرے سے متعلق جانے کیا کچھ نہیں کہا مگر الیکشن کے ختم ہوتے ہی کومو نے سب سے پہلے اپنی شکست تسلیم کی اور ساتھ ہی ممدانی کو اس کی جیت پر مبارکباد کا پیغام پہنچایا۔ اس پر جب اس کے حامیوں نے شور مچانا شروع کیا تو کومو نے انہیں یہ باور کرایا کہ ایسا چلن امریکی سیاسی اقدار و روایات کے نفی کرتا ہے۔
اسی طرح دنیا بھر نے امریکی جمہوری نظام کا روشن پہلو چند روز قبل اس وقت دیکھا جب صدر ٹرمپ اور ممدانی کی ملاقات ہوئی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے دونوں شیرو شکر نظر آئے۔ اس عجیب منظر نے جہاں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں بسنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہاں وطن عزیز کے اندر بہت سے نابالغ سیاسی جغادریوں کو بھی یقینی طور پر سخت مایوس کر دیا ہے جو سیاسی بلوغت کے فقدان اور عدم برداشت کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ صدر ٹرمپ اور نیو یارک کے نو منتخب میئر ظہران ممدانی کے درمیان الیکشن مہم کے دوران ہونے والی زبان درازی اب تک ذاتی دشمنی میں بدل چکی ہوگی۔

