سیلاب میں ڈوبنے والے کون

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا جادو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سر چڑھ کر بولنا شروع ہو چکا ہے جس کے باعث امسال پری مون سون بارشوں نے گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں جون کے وسط سے تباہی مچانا شروع کر دی تھی۔ کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی ریلوں نے سب سے پہلے سوات میں ناشتہ کرتے، سیلفیاں لیتے سیالکوٹ کے ایک ہی خاندان کے درجن سے زائد افراد کو نگل لیا۔ اس کے بعد لینڈ سلائیڈنگ اور موسلا دھار بارشوں نے کئی قیمتی زندگیاں لقمہ اجل بنائیں اور سیرو سیاحت کی غرض سے آنے والے جانے کتنے خاندان اجڑ گئے۔ باجوڑ اور بنیر میں قیامت خیز بارشوں اور سیلابی ریلوں نے ہنستے بستے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے اور سینکڑوں افراد زندگی کی بازی ہارگئے۔ یوں بالائی علاقوں میں ہر طرف موت کا رقص جاری رہا۔
جو رات کو خوشیوں سے مالا مال اور معاشی طور پر خوشحال سوئے تھے ان میں سے کچھ اگلی صبح یا موت کی بانہوں میں سمٹ چکے تھے اور جو باقی بچے تھے وہ ٹنوں وزنی پتھروں کی تہوں کے نیچے دب جانے والے جان سے پیاروں کی لاشیں تلاش کرنے میں سرگرداں بے بسی کی تصویر بنے کسی آسمانی معجزہ کی آرزو کرتے نظر آئے مگر آسمان سے برسنے والے بادل موت کی گھنٹیاں بجانے پر مصر پائے گئے۔ خیبر پختونخواہ کے بعد مون سون بارشوں کا سلسلہ پنجاب میں داخل ہوا تو پانچ دریاؤں پر مشتمل اس صوبے کے سونا اگلتے زرخیز کھیت کھلیانوں کو جیسے کسی کی بد نظر چاٹ گئی۔
طوفانی بارشوں کے باعث دریاؤں میں طغیانی نے سر اٹھایا تو ساتھ ہی ہمسایہ ملک بھارت نے ملکی تاریخ کی بدترین آبی جارحیت کرکے ایک سے زیادہ مرتبہ بغیر پیشگی وارننگ کے اپنے ڈیمز کے سارے سپل ویز کھول کر پانیوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں چناب، راوی اور ستلج میں بیک وقت انتہائی اونچے درجے کے سیلاب نے سیالکوٹ سے لیکر مظفرگڑھ تک لاکھوں ایکڑ اراضی پر لہلہاتے کھیت اجاڑ دیئے، ہزاروں عالیشان عمارتوں، گھروں اور ڈیروں کو بے پناہ نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد کو بے گھر ہونے پر مجبور کر دیا۔
گزشتہ دو برسوں میں اپنی فصلوں کی غیر مناسب قیمتوں کے باعث پنجاب کے کسان پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار تھے کہ سیلاب کی آفت آن پڑی اور وہ اپنا سب کچھ گنوا کر کھلے آسمان تلے سڑک کنارے لگائی گئی خیمہ بستیوں میں سر چھپانے کے ساتھ ساتھ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے پر مجبور ہو گئے۔ مگر بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے والوں نے ان کی سفید پوشی کی چادر تار تار کرنا شروع کیا جس سے انہیں سر بازار رسوائیاں دیکھنے کو ملتی رہیں۔ سرکاری اہلکاروں سے لیکر اعلٰی افسران کے علاوہ مخیر حضرات، فلاحی تنظیموں کے ذمہ داران سمیت سب کے سب درجنوں کیمروں کی موجودگی میں انہیں امداد کے رنگ میں خیرات دیتے نظر آئے، لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا کرکے انھیں بھکاریوں کی طرح دھتکارا گیا اور ان کی عزت نفس مجروح کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔
اس سلسلے میں کئی چشم کشا واقعات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جن میں کہیں امدادی سامان کے ایک ہی تھیلے کے ساتھ پورے گاؤں کے سیلاب متاثرین کی تصاویر اتاریں گئیں تو کسی جگہ چند کسانوں کو جانوروں کا چارہ دیتے ہوئے تصاویر بنا کر چارہ واپس لے لیا گیا جس پر ان بے چاروں کے ساتھ کی گئی تلخ کلامی کی فوٹیج سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ اسی طرح کئی مقامات پر مختلف سرکاری اور نجی شعبہ سے ملنے والی امدادی سامان پر سرکاری عملہ نے ہاتھ صاف کئے اور کہیں تقسیم پر مامور عملے نے اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر اشیاء خوردونوش کی ترسیل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
امدادی سامان اور اشیاء خوردونوش کی تقسیم اور ترسیل کے دوران پیشہ ور گداگروں کے درجنوں جتھے پنجاب کے تمام متاثرہ علاقوں میں لشکر کشی کرتے نظر آئے اور خوب لوٹ مار مچائی۔ چند مقامات پر وہ تقسیم کے عمل پر مامور سرکاری عملے پر باقاعدہ حملہ آور ہوئے اور راشن کے تھیلے چھین کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جس پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
غیر معمولی موسلادھار بارشوں اور بھارتی آبی جارحیت نے سیلاب کو ایک بہت بڑی آفت میں بدل دیا جس کے سب سے زیادہ خوفناک اثرات ملتان کی تحصیل پیر والا اور مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور میں دیکھنے کو ملے جہاں لوگ کئی روز تک دس سے بارہ فٹ اونچے پانیوں کی موجودگی میں درختوں پر پناہ لے کر اپنی جان بچانے پر مجبور ہوئے۔ بہت سے سر کاری اداروں کے اہلکاران اور افسران اور فلاحی تنظیموں کے رضاکاران کا کردار قابلِ ستائش رہا۔ بد قسمتی سے کسی بھی سنسنی خیز صورتحال میں درجنوں کیمرے بیک وقت تصاویر اور وڈیوز بنانے میں پیش پیش رہے۔
کہا جاتا ہے جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ یہاں تقریباً وہی کیفیت دیکھی گئی۔ ایک طرف بستیاں ڈوب رہی تھیں اور گاؤں کے گاؤں اجڑ رہے تھے تو دوسری طرف متعلقہ سرکاری اداروں کے اہلکاران اور افسران درجنوں کیمرے آن کرکے امداد کاروائیوں کی عکس بندی میں مصروف دکھائی دیے۔ یہ الگ بات ہے کہ فلمائے گئے بیشتر مناظر کے سکرپٹ میں واضح تضادات نظر آئے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر فلمائی گئی کہانی باکس آفس پر ہٹ ہونے کی بجائے بری طرح فلاپ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر کڑی نکتہ چینی اور شدید ترین تنقید نے ان فلم سازوں کی کمزوریوں کی جہاں نشان دہی کی وہاں ان کی خود نمائی کی دُرگت بھی بنائی۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ سیلاب زدگان کی مفلوک الحالی اور لا چارگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کشتی والوں نے بھی خوب مال بنایا اور بیس سے پچاس ہزار روپے فی کس وصول کرتے رہے۔ اسی طرح جانوروں کے چارے کی قیمت تین سے پانچ گنا بڑھ گئی۔ سب سے افسوس ناک کردار ان صاحب حیثیت افراد کا رہا جنہوں نے وسائل ہونے کے باوجود متاثرین کی امداد سے پہلو تہی برتی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ سیلاب میں ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد نوسو کے لگ بھگ ہے مگر خود غرضی، بے حسی، بخل اور بے شرمی کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے والے لاکھوں ہیں اور وہ زندہ ہیں۔

