قیامت سے قیامت تک

وطنِ عزیز پاکستان کے بے بس اور بے کس عوام کی قسمت میں شاید دکھوں سے لڑنا، دہشتگردوں سے نبردآزما ہونا اور قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونا ہی لکھ دیا گیا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ آئے روز بے گناہ اور بے نوا لوگ تاریک راہوں میں مارے جائیں، کلاؤڈ برسٹ اور بے پناہ بارشوں کے نتیجے میں خونی سیلابی ریلوں میں خاندان کے خاندان ڈوب جائیں، رنگ و خوشبو کا پیکر زندگیاں اجڑ جائیں اور دہائیوں سے آباد ہنستی بستی بستیاں پل بھر میں ویرانوں میں بدل جائیں۔
ایک طرف اس ارض پاک میں بسنے والے عام لوگوں کی روزمرہ زندگی میں فاقے، ڈاکے، ناکے اور دھماکے ہیں اور زمینی خداؤں نے ان پر قافیہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اندوہناک واقعات میں ہر روز طاقتور افراد اپنی معاشی، سماجی، سیاسی یا سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرکے عام آدمی پر چڑھ دوڑتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف آسمان سے بھی رحمت کی دعا کے بدلے زحمت اور زندگی کی آرزو کے جواب میں موت کے سندیسے ملتے ہیں۔ کبھی پہاڑ سے کٹے ہوئے مٹی کے تودے سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں، کبھی نہ تھمنے والی بارشوں کے تباہ کن سیلابی ریلے درختوں اور گھروں کی بنیادیں اکھاڑ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔
ایوانِ اقتدار اور مسند توقیر پر فائز اربابِ بست و کشاد کو اقتدار و اختیار کے جھمیلوں سے فرصت ہی کہاں کہ وہ ان کے لیے کوئی پختہ نظام وضع کریں، کوئی ٹھوس منصوبہ بندی عمل میں لائیں، ان کی موت جیسی زندگی میں آسانیاں پیدا کرکے انہیں جینے کے قرینوں سے روشناس کروا سکیں۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ممکن تھا اور آج بھی ہے مگر یہاں ہر بار صرف کردار بدلتے ہیں جبکہ کہانی وہی دہرا دی جاتی ہے۔ ہر سانحے کے بعد مردود و مقہور و مظلوم متاثرہ خاندانوں کو چند لاکھ روپے کے امدادی چیکس پیش کردئیے جاتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر کے ذریعے نقصانات کا فضائی جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر فوٹو سیشن میں امدادی سامان اور رقوم تقسیم کرکے بے بسی کی تصویر بنے لٹے پٹے بد نصیب افراد پر احسان عظیم کر دیا جاتا ہے۔ گویا یہ امداد زندگیاں اور ہنستے بستے گھر واپس لا سکتی ہے، یتیم بچوں کو ان کے والدین واپس لوٹا سکتی ہے، اجڑ گئے سہاگ دوبارہ آباد کر سکتی ہے اور جان سے پیاروں کے چلے جانے کے غموں کا مداوا بن سکتی ہے۔ جس بد قسمت فرد کے ماں، باپ، بچے حتی کہ مویشی بھی بہہ گئے ہوں وہ چند لاکھ کا کیا کرے گا۔ دہائیوں پر محیط بد انتظامی، پیشہ ورانہ بد دیانتی اور ناقص حکمت عملی کے کینسر کا علاج سنی پلاسٹ یا پین کلر سے کہاں ممکن ہے۔ اس قوم کو چند ٹکوں کی امداد نہیں بلکہ مربوط، مستحکم اور مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو انہیں مصائب و حوادث سے محفوظ بنا سکے۔ مگر یہ سب کچھ کون کرے؟ دراصل یہ ملین ڈالر سوال ہے؟
عملی حقیقت یہ ہے کہ جن کے اپنے محلات محفوظ ہیں انہیں کیا معلوم کہ جان سے پیاروں کا دکھ کیا ہوتا ہے، انہیں کیا خبر کہ پانی کے ریلوں میں بہہ جانے والوں کی بے بسی میں چھپی چیخ کتنی بھیانک ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی کہاں معلوم کہ ملبے سے اپنوں کی لاشیں تلاش کرنے والے خود بھی لاش بن جاتے ہیں۔ ہر چند دن بعد ایک نیا حادثہ، ایک نئی اندوہناک خبر، ایک نیا قومی سانحہ، موت کے مقابلے میں زندگی ہارنے والوں کی ایک نئی گنتی اور ان گنت جنازے کہ میتوں کو کندھا دینے والے کم پڑ جائیں۔
کبھی سوات کی حسین و جمیل وادیاں سوگ میں ڈوبی نظر آئیں، کبھی ہنزہ کے سرسبز و شاداب پہاڑ زندگی کی تلاش میں گھروں سے سینکڑوں میل دور آنے والے مسافروں کو اپنی خونی بانہوں میں جکڑ لیں۔ پھر چلاس، سکردو اور بونیر میں موت کا رقص شروع ہو جائے کہ جہاں ہمیشہ خوشی و خوشحالی کے شادیانے بجتے تھے، جہاں گھٹن زدہ ماحول سے گھبرائے ہوئے سیاح رنگ و خوشبو کا ترنگ دیکھنے آتے تھے، وہاں اب موت کے ڈیرے ہیں اور قبرستان جیسے سکوت کے بسیرے ہیں اور تو اور قہر آلود بادلوں نے ہمیشہ سے محفوظ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ندی نالوں میں ایسی طغیانی برپا کی کہ بپھرے پانیوں نے شہر اقتدار کی زندگی مفلوج کر ڈالی، سید پور کے کو چہ و بازار سیلابی ریلوں میں کیا ڈوبے کہ پورے شہر کے باسیوں کے دل ہی ڈوب گئے۔
ادھر جڑواں شہر راولپنڈی میں دریائے سواں کی بپھری ہوئی لہروں نے گھروں کی بنیادیں اکھاڑ دیں اور کئی قیمتی زندگیاں اپنے کو بہا کر لے گئی، حتی کہ جدید خطوط پر استوار ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی ایک صاحب اپنی بیٹی سمیت گاڑی میں مقید ہو کر بپھرے پانیوں کی خونی لہروں کی نذر ہو گئے۔ موت کے سامنے بھلا کب بند باندھ سکا ہے کوئی۔
قدرت کے اپنے دائمی قوانین اور حتمی اصول و ضوابط ہیں۔ رب العالمین نے یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ دریا، یہ جھرنے، یہ آبشاریں سب ہماری زندگی میں رنگ ترنگ شامل کرنے کے لئے متعین کر رکھی ہیں۔ مگر ہمارے خالق حقیقی نے ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کر رکھی ہیں جنہیں ہم یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں ہم نے ان قدرتی وسائل کی تقسیم اور ترسیل میں انتہائی غیر ذمہ داری، شدید بے اعتنائی، مجرمانہ غفلت اور حد سے زیادہ لالچ کا مظاہرہ کیا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ فطرت خاموش تماشائی نہیں رہ سکی، بلکہ وہ اپنا سخت ردعمل دینا شروع ہوئی ہے۔
ہم نے خود دیکھ لیا کہ بارش ہو تو شہر ڈوب جاتے ہیں، پہاڑوں پر بادل پھٹیں تو بستیاں بہہ جاتی ہیں، دریا بپھریں تو راستے، پل اور کھیت نگل لیتے ہیں اور ہم ہر بار ایسے گھبرائے نظر آتے ہیں کہ جیسے یہ آفت پہلی بار آئی ہو۔ لگ بھگ آٹھ دہائیوں کے اس سفر میں ہم نے ترقی کے ہزار دعوے کیے، مگر حادثات سے نپٹنے اور قدرتی آفات سے بچاؤ کا نہ کوئی مؤثر نظام بنایا، نہ کوئی مستقل پالیسی اپنائی اور نہ کوئی مضبوط ادارہ تشکیل دیا جو ان آفات و بلیات سے محفوظ رکھنے کی پیش بندی کرکے قیمتی انسانی جانوں اور قدرتی مناظر و وسائل کے نقصانات کا تدارک کر سکے۔
یاد رہے کہ قدرت کے اصول بڑے واضح اور سادہ ہیں جو افراد اور معاشرے خود کو ان ضوابط کے تابع کر لیں، فطرت ان پر مہربان ہو جاتی ہے مگر نافرمانی کا ارتکاب کرنے والوں یہ نشان عبرت بھی بنا دیتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آفات سے نمٹنے کے لیے برسوں پہلے ٹھوس اور جامع منصوبے بنائے جاتے ہیں جبکہ ہم صرف لاشیں گنتے ہیں اور جنازے اٹھائے ایک قیامت سے نبردآزما ہوتے ہوئے دوسری قیامت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

