Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Mola Khush Rakhe

Mola Khush Rakhe

مولا خوش رکھے

گزشتہ تین سال سے میں اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں یہاں برطانیہ میں تحقیقی کام میں مصروف عمل ہوں اور اب ہر بات کو تنقیدی نظر سے دیکھنے، پرکھنے اور جانچنے کے انداز و اطوار سیکھ رہا ہوں۔ اپنے اس نئے فکری سفر کے دوران بہت سے بنیادی موضوعات اور معاملات کو ازسرنو دیکھنا شروع کیا تو ان کی عمیق گہرائیوں میں چھپے مفاہیم و مطالب کے گوہرِ نایاب میسر ہوئے، نئے سرے ہاتھ لگے اور کئی الجھی ہوئی گتھیاں خود بخود سلجھنا شروع ہوگئیں۔ چونکہ میرا تعلق پنجاب کے دیہاتی وسیب سے ہے اور ہمارے دیہاتی علاقوں کا اپنا منفرد ثقافتی ورثہ ہے۔

ہماری دیہی معاشرتی زندگی ایک طرف گہرے اور مربوط سماجی ڈھانچے میں مقید ہے تو دوسری طرف سماجی طبقات کی درجہ بندی کے متعین کردہ دائروں میں گھومتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں سے بڑھتی ہوئی تعلیم، نوجوانوں کی روزگار سے وابستگی اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی عام دستیابی نے اس روایتی طرز زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے مگر پھر بھی کچھ کردار آج بھی اپنی مسلمہ حقیقت اور انفرادی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔

ان چند گنے چنے کرداروں میں بھانڈ کا کردار آج بھی پوری آب و تاب سے قائم ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز سے علاقے کے زمینداروں، وڈیروں اور صاحبانِ جاہ و حشمت کی جھوٹی ستائش، چاپلوسی اور خوشامد سے ان کا دل موہ لیتا ہے۔ اس تمام جعل سازی اور ملمع کاری پر مبنی تعریف و توصیف بیان کرنے کا مقصد ان حضرات کی جیبوں سے ایک بڑا نوٹ نکالنا ہوتا ہے اور پھر مطلوبہ مقاصد میں کامیاب ہونے پر موصوف کے وہ اوصاف حمیدہ بھی گنوا دیئے جاتے ہیں جو خود ان صاحبان عقل و دانش سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔

میں نے بھانڈوں کے اس طریقہ واردات کا ازسرِ نو جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان کے اس طرز تکلم کے اندر مصلحت، حکمت اور ذہانت کے ان گنت راز مضمر ہیں۔ ہر گاؤں میں چوہدراہٹ کی دوڑ میں شامل کئی چشم و چراغ دوسروں سے سبقت لے جانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں بسا اوقات مسابقت سے بات بڑھتی ہوئی مخالفت اور مخاصمت پر منتج ہوتی ہے۔ کبھی کبھار یہ باہمی عداوت خون خرابے اور قتل و غارتگری تک جا پہنچتی ہے مگر اس کے باوجود یہ اچھوتا کردار متحارب فریقین میں یکساں مقبول رہتا ہے۔

جب بھی اسے چوہدری صاحب کے سامنے پیشی کے لئے طلب کیا جائے تو جی حضوری اور تابعداری کے اپنے ہی قائم کردہ سابقہ ریکارڈ توڑ کر چاپلوسی کے نئے اہداف مقرر کرکے چوہدری صاحب کو نہایت عمدگی سے شیشے میں اتارنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اپنی فطری ذہانت، بے پناہ حاضر دماغی، برمحل برجستگی اور فقید المثال یاداشت کی بدولت وہ ہر دور میں غیر متنازعہ رہا ہے۔ میں یہ سوچ کر اکثر محو حیرت ہوں جاتا ہوں کہ بھانڈوں کا یہ خوشامدانہ طرز تخاطب انسانی نفسیات کے کس قدر قریب تر ہے۔ کبھی کبھی تو یہ خیال بھی میرے دل میں کروٹ لیتا ہے کہ انسانی نفسیات کے کئی بنیادی موضوعات نے شاید بھانڈوں کی ان مہارتوں کے قریبی مشاہدات سے جنم لیا ہوگا۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ بھانڈ اپنی اس آزمودہ اور انتہائی کارگر مہارت کے لئے نہ کسی تعلیمی ادارے سے ڈگری حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی ماہر نفسیات کے تربیتی پروگرام کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا یہ موثر ترین ہتھیار ان کے علاوہ بھی کامیابی سے مستعمل رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھکاری اور گداگر بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی وضع قطع دیکھ کر ان سے مخاطب ہوکر انہیں دعاؤں کے حصار میں جکڑ کر ان کی جیب سے پیسے نکلواتے ہیں۔ شاطر بھکاری مرد و زن کو اکھٹے دیکھ کر جوڑیاں سلامت اور بزرگوں کو دیکھتے ہی مکے اور مدینے سے بلاوے کی دعائیں دیتے اور نوید سناتے ہیں۔

اسی موضوع کی نزاکت پر مزید غور کیا تو معلوم ہوا کہ خوشامد اور چاپلوسی پر محض بھانڈوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے کے تمام شعبوں میں سرایت کر چکی ہے اور شاید ہی کوئی ادارہ یا شعبہ زندگی ایسا ہو جس میں اس ہتھیار کو کامیابی سے استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ تقریباً ہر نجی اور سرکاری دفتر میں چند ہوشیار، مکار اور عیار فنکار موجود ہوتے ہیں جو کارکردگی کی بجائے باس کی جی حضوری کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں۔

وہ ہمہ وقت اپنے باس کے ارد گرد سائے کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں اور اس کی جھوٹی تعریف و ستائش کرکے اسے اپنی چالاکی کے ہالے میں قید کر لیتے ہیں۔ اسے دوسروں سے متعلق پتے کی باتیں بتانا، اس کے کان بھرنا، اس کی بے پناہ خوشامد کرنا، اس کی ہاں میں ہاں ملانا اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اس کی شان اقدس میں عاجزانہ التجائیں کرنا ان مکاروں کا شیوہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف پوری محنت، دیانت اور امانت سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے والوں کو منہ پھٹ، بد لحاظ، خبطی، نیم پاگل اور سڑیل کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی سالانہ رپورٹ کو خراب کیا جاتا ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں جبکہ دربار عالیہ میں جھکنے والے ہمیشہ رفعتیں پاتے جاتے ہیں۔

کالم اختتام کی طرف بڑھا تو مجھے پنجاب یونیورسٹی کا اپنا ایک ہوسٹل فیلو ملک اسلم بھی یاد آگیا جسے چاپلوسی اور خوشامدانہ انداز گفتگو پر ملکہ حاصل تھا جس کی بدولت موصوف کو "اسلم چک" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اب کئی ماہ و سال گزرنے کے بعد یہ معلوم نہیں کہ زندگی کی راہوں میں وہ کہاں کھو گیا۔ ہاں مگر اس بات کا ملال ضرور ہے کہ ہم عہد شباب میں اس کی "چک چکا" پر اسے شاید کچھ زیادہ ہی ہدف تنقید بناتے تھے جبکہ بعد ازاں عملی زندگی یہی سقہ رائج الوقت دیکھ کر اپنی اس بچگانہ سوچ پر اب احساس ندامت گہرا ہو جاتا ہے۔ گاؤں کے چوہدری کا ڈیرہ ہو یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر کسی سرکردہ شخصیت کا دربار وہاں سے مرادیں پانے کا مروجہ اصول ایک ہی ہے، مولا خوش رکھے تے بھاگ لگے رہن۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam