مٹی کی خوشبو
ہمارا خمیر مٹی سے اٹھایاگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنی مٹی کی خوشبو سے دائمی پیار ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ ہم سب اس عالم آب و گل میں اپنی زندگی کے گنے چنے ماہ وسال گزار کر دوبارہ مٹی کی آغوش محبت میں آسودہ خاک ہو جاتے ہیں۔ اپنی مٹی سے زیادہ پیار دیہاتی علاقوں میں بسنے والوں کو ہوتا ہے جو قدرتی ماحول میں کھیت کھلیانوں، ندی نالوں اور مال مویشی کو اپنی زندگی میں شامل کرکے فطرت کے قریب ترین مشاہدات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسی طرح فطرت کی سادگی اور خوبصورتی ان کے کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کے باعث عام طور پر لوگوں میں بناوٹ کے امکانات کافی محدود ہوتے ہیں۔
ویسے بھی لوگ ایک دوسرے کو باپ دادا کی نسبت سے جانتے ہیں تو وہاں اصلیت کو چھپانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہذا اصلی اور نسلی کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔ اس سادہ طرز زندگی کا ایک نمایاں فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں میں کسی بھی قسم کا کمپلیکس نہیں رہتا بلکہ اپنی اصل شناخت پر فخر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے یہ بجا طور پر کہا گیا ہے کہ لوگ دیہات سے نکل بھی جائیں تو بھی دیہات لوگوں کے اندر سے نہیں نکل پاتے۔ گاؤں سے نکل کر شہر میں آباد ہو جائیں یا دیار غیر جا بسیں، دیہاتی لوگوں کے مزاج میں ڈیرہ داری، مہمان نوازی، اخلاص، سادگی اور میل ملاپ کے رجحانات بدستور موجود رہتے ہیں۔
زمانہ طالب علمی اپنا آبائی گاؤں چھوڑ کر لاہور اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوئے تو زیادہ دوستی دیہاتی پس منظر رکھنے والے طلباء سے رہی کہ مزاج میں مماثلت تھی، قدریں ملتی تھیں اور گپ شپ کے انداز میں اپنائیت کا احساس زیادہ پایا جاتا تو بہت جلد شناسائی دوستی میں بدل جاتی۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ شہروں میں پیدا ہونے والے پیار محبت اور خلوص کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں اچھے لوگ جنم نہیں لیتے یا یہ کہ دیہات سے تعلق رکھنے والے سب کے سب اخلاص اور محبت کا استعارہ ہوتے ہیں، ایسا بالکل نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دیہاتی زندگی مظاہر فطرت کی آغوش میں پنپتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدرتی ماحول سے قربت دیہی لوگوں کی رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔ وہ جہاں بھی رہیں ان کی شخصیت و کردار میں دیہاتی زندگی کے رنگ ترنگ بدرجہ اتم موجود رہتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سولہ برسوں میں جب بھی وطن عزیز پاکستان سے بیرون ملک سفر اختیار کرنا پڑ ا تو ہوٹل میں قیام کے بجائے میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اجنبی ماحول میں کسی ہوٹل کے کمرے میں زندگی دیواروں تک محدود ہو جاتی ہے جب کہ احباب کی موجودگی سے زندگی کا حسن کرشمہ ساز بن جاتا ہے۔
سترہ سال قبل جب میں پہلی مرتبہ انگلینڈ آیا تو یہاں چند پاکستانی احباب سے محبت کا ایسا رشتہ استوار ہوا جو عمر بھر بھر کا اثاثہ ٹھہرا۔ دیہاتی پس منظر کے باعث دل سے دل مل گئے اور شنا سائی ہمیشہ کی رفاقت میں بدل گئی۔ ان احباب کی وضع داری کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر سے بے پناہ محبت نے مجھے بہت متاثر کیا۔
میں نے ایم اے انگریزی کے دوران ولیم ورڈز ورتھ کی فطرت سے لازوال عشق پر مبنی شہرہ آفاق شاعری کو پڑھا اور اس کے ساتھ عظیم امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی نظموں میں قدرتی مناظر سے محبت کے قصے پڑہے تو میرے دل میں بھی فطرت کی محبت کے چراغ روشن ہوئے۔ سی ایس ایس کی تیاری کے دوران پنجابی زبان کے شعراء میں شریف کنجاہی کی دیہاتی زندگی پر شاعری نے یقینی طور پر متاثر کیا۔ ان تمام شعرا کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ یوں لگتا کہ جیسے ان کے اشعار صرف میرے لئے لکھے گئے تھے۔ انگلینڈ میں آنا جانا شروع ہوا تو میرے احباب نے مجھے اپنے ہائیکنگ کلب فل واکرز سے بھی متعارف کروایا جو ہر ویک اینڈ پر شمال مغرب میں واقع فطرت کے دیدہ زیب مناظر میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے وہاں سیرو سیاحت کے لئے روانہ ہو جاتا تو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتا۔
ابتدائی طور پر اس کلب کی تعداد سات آٹھ افراد پر مشتمل تھی جو اب بڑھ کر بیس کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ دو سال قبل جب میں پی ایچ ڈی کے لئے برطانیہ آن پہنچا تو اپنے دیرینہ دوستوں سے ملاقات تواتر سے شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ فل واکرز ہائیکنگ کلب کے ممبران کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ بہت سریلے فنکار بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گروپ ہر ماہ یارک شائر کے گھنے جنگل گزبرن فاریسٹ کے عین وسط میں ایک شاندار محفل کا انعقاد بھی کرتا ہے جس میں ہمارے فنکاروں کے علاوہ مہمان شخصیات اور قوال بھی شریک ہوتے ہیں۔ میں کیونکہ لیسٹر میں قیام پذیر ہوں اس لئے میں ہر ماہ اس خصوصی پروگرام میں شرکت نہیں کر سکتا۔ لہذا دو چار ماہ کے بعد میں اس خوبصورت محفل میں شرکت کیلئے پہنچ جاتا ہوں۔
گزشتہ ہفتے ہمارے اس منفرد ہائیکنگ کلب کے ماہانہ پروگرام میں مجھے ایک مرتبہ پھر شرکت کا موقع ملا اور ہمیشہ کی طرح ہمارے محترم انجینیئر عبدلحمید قریشی نے یارک شائر کے گزبرن فاریسٹ میں منعقد ہونے والی اس شاندار محفل میں میری شرکت کو ممکن بنایا۔ قریشی صاحب لیسٹر سے مزید ایک گھنٹے کی مسافت پر ساؤتھ ایسٹ ایسٹ میں واقع بوسٹن شہر میں رہائش پذیر ہیں اور ہمارے کلب کے مستقل رکن ہیں۔ لہذا اس ماہانہ پروگرام میں وہ باقاعد گی سے شریک ہوتے رہتے ہیں۔ جب مجھے فرصت میسر ہو تو وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح پروگرام کی سرپرستی چوہدری ریاض احمد جبکہ مثالی انتظامات میں پروگرام کے روح رواں چوہدری نجف محمود، چوہدری عبدلغفور اور حاجی رحمت علی پیش پیش رہے۔ رات ڈھل گئی اور محفل اختتام پذیر ہونے لگی تو قریشی صاحب اور میں نے واپسی کی راہ لی۔ تاروں بھری رات میں ہم یارک شائر کے گزبرن فاریسٹ سے لیسٹر کے لئے روانہ ہوئے تو وطن عزیز پاکستان کی مٹی کی خوشبو اس وسیع و عریض جنگل میں چہار سو پھیل چکی تھی۔