موت کے خریدار

گزشتہ چند ماہ کے دوران یورپ کے ساحلی علاقوں میں تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتیاں الٹنے کے باعث جتنے بھی حادثات رونما ہوئے ہیں ان میں درجنوں پاکستانی اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ پاکستان سے برطانیہ اور یورپ کی طرف غیر قانونی نقل مکانی گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جس میں واضح اکثریت میر پور، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور منڈی بہاوالدین کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے خطروں کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ ان اضلاع سے امیگریشن کا آغاز منگلا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ 1960 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب فیلڈ مارشل ایوب خان کی درخواست پر ملکہ برطانیہ نے پاکستانیوں کے لئے امیگریشن کے دروازے کھول دیئے۔
اس دور میں برطانیہ اور یورپ کی صنعتی ترقی کا پہیہ چلانے کے لئے سستی اور کارگر لیبر کی ضرورت تھی لہٰذا امیگریشن پالیسی کے قوانین و ضوابط نرم اور لچکدار رکھے گئے۔ اس بہتی گنگا میں ان تارکین وطن نے خوب ہاتھ دھوئے جو برطانیہ اور یورپ پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کو ان ممالک میں منتقل کرنے کے تمام جائز و ناجائز طریقے اپنائے۔
جواں سال بچوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرکے وہاں بلا لیا گیا جبکہ چھوٹی عمر کے بچوں کے والدین کے کوائف میں ردوبدل کرکے ویزے لگوائے گئے اور یوں خاندان کے خاندان برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ملکوں میں صنعتی پیداوار کا زور ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں لیبر کی مانگ کمزور پڑنے لگی۔ مگر دوسری طرف پاکستان سے برطانیہ اور یورپ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ بدستور جاری رہا۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس خلا کو پُر کرنے کے لئے پاکستانی ایجنٹ مافیا نے زرو پکڑا اور اس طرح غیر قانونی امیگریشن کے خطرناک ترین کھیل کا آغاز ہوگیا جو تا حال جاری و ساری ہے۔
پاکستانی تارکین وطن نے اپنی کمائی کا خطیر حصہ وطن بھجوا کر اپنے آبائی علاقوں میں عالیشان محلات تعمیر کروائے، قیمتی گاڑیاں خریدیں اور مختلف نوعیت کے کاروبار شروع کئے۔ کئی افراد حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر بھاری رقوم مسلسل پاکستان بھجواتے رہتے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک کروڑ سے زائد پاکستانی تارکین وطن ہر سال تقریباً تیس ارب ڈالرز کے لگ بھگ ترسیلات زر پاکستان بھجواتے ہیں جس سے ایک طرف وطن عزیز پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ میسر ہو جاتا ہے تو دوسری طرف ان خاندانوں پر معاشی آسودگی کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات، جہلم اور منڈی بہاوالدین کے کئی دیہات میں مختلف بینکوں نے اتنی شاخیں قائم کر رکھی ہیں جتنی جنوبی پنجاب یا ملک کے دیگر اضلاع کے بڑے شہروں میں شاید ہی دیکھنے کو ملتی ہوں۔ یوں بیرون ملک سفر اختیار کرنے کے رجحانات میں مسلسل غیر معمولی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نیم خواندہ افراد ایجنٹ مافیا کے جھانسوں میں آکر انہیں اپنی جمع پونجی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
موت کے سوداگروں پر مشتمل انسانی سمگلرز ان معصوم لوگوں سے بھاری رقوم بٹور کر انہیں یورپ کے خونی ساحلوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کئی مہینوں پر مشتمل اس خطرناک سفر میں جہاں سینکڑوں خوش نصیب اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہاں ڈنکی لگانے والے قسمت کے مارے درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
آئے روز بڑھتے ہوئے ان حادثات کے پیشِ نظر جہاں انسانی سمگلروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی لازم ہے کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ میں غیر قانونی نقل مکانی کرنے والے افراد عالمی منظرنامے کا بغور جائزہ لیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے جس تیز رفتاری سے پسماندہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں تارکین وطن پہنچ چکے ہیں اس سے ان ملکوں کی مقامی آبادی کا نہ صرف توازن بگڑا ہے بلکہ ان کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور متعلقہ حکام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تارکین وطن کی مسلسل بڑھتی آبادی نے ان کے وسائل پر دباؤ بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں اور مہنگائی میں ہوش ربا اصافہ بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔ جبکہ دیگر بڑے محرکات میں جہاں چند برس قبل ایک طرف کرونا وائرس نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف روس اور یوکرین کے درمیان چھڑنے والی جنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے باعث توانائی سمیت تمام اشیا خوردونوش کی ترسیل کا پورا بین الاقوامی نظام بگڑ گیا ہے اور یوں عالمی منڈی میں ہوشربا مہنگائی نے لوگوں کی روزمرہ زندگی اجیرن بنادی ہے۔
اسی معاشی بحران سے بیزار عوام نے ترقی یافتہ ممالک میں بائیں بازو کی سیاسی قوتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے اور اپنی حکومتوں کو دباؤ میں لا کر امیگریشن قوانین کو مزید سخت کرنے پر زور دیا ہے۔ بے پناہ مہنگائی کے اسی بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں گزشتہ دنوں کینیڈا کے وزیراعظم نے اپنے عہدے کے ساتھ ساتھ پارٹی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم تارکین وطن کے خلاف جارہانہ اقدامات کی پالیسی نے حالیہ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب اس پالیسی پر سختی سے عمل شروع ہو چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر غیر قانونی تارکین وطن پر امریکہ میں قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کرکے ان کے آبائی ممالک میں ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔
اسی دباؤ کا سامنا برطانیہ کی نو منتخب حکومت بھی کر رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیئر سٹارمر کو سخت ترین امیگریشن پالیسی وضع کرنے پر مجبور کرتیں دکھائی دیتی ہیں۔ لہذا اس نئے عالمی منظرنامے اور تیزی سے بدلتے معروضی حالات کی موجودگی میں یہ لازم ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد ایجنٹ مافیا کے ہاتھوں لٹنے اور موت کے خریدار بننے سے پہلے یہ بات ا چھی طرح سمجھ لیں کہ ان کا یہ خطرناک ترین سفر جس کی لاگت ساٹھ سے اسی لاکھ بتائی جاتی ہے کہیں ان کا سفر آخرت نہ بن جائے۔