معصوم مجرمان

ہمارے آبائی گاؤں میں پرائمری سکول کی سہولت تھی تو پانچویں کلاس کے بعد بھائی سیف انور اور مجھے چھٹی جماعت کے لئے گاؤں سے سات کلومیٹر دور مڈل سکول میں داخلہ لینا پڑا۔ کم عمری کے باعث ہم سائیکل چلانا بھی نہیں سیکھ پائے تھے جبکہ پختہ سڑک نہ ہونے کے سبب بس کی سہولت موجود نہیں تھی۔ لہذٰا سکول آمدورفت کا واحد ذریعہ پیدل سفر تھا۔ اس طرح چودہ کلومیٹر فاصلہ روزانہ بنیادوں پر طے کرنا ہمارا معمول بن گیا۔
مختلف پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے لگ بھگ چالیس منٹ میں ہم سکول کے گیٹ پر جا پہنچتے۔ راستے میں کئی مرتبہ سو میٹر دوڑ کے مقابلے بھی منعقد ہوتے کیونکہ سکول دیر سے پہنچنے کی صورت میں سخت سردی میں ٹھٹھرے ہوئے ہاتھوں پر پی ٹی صاحب کے ڈنڈوں کی سزا جھیلنا اک ڈراؤنا خواب تھا۔ صبح سویرے ہماری تیز رفتاری کے پیچھے اسی ممکنہ مارکٹائی کا خوف بھی برسر پیکار تھا جس کے سائے میں ہمارا سات کلومیٹر کا فاصلہ پلک جھپکتے ہی طے ہو جاتا۔
لنچ بریک کے لئے امی جان خالص مکھن کے پراٹھوں کے ساتھ دیسی انڈے کی آملیٹ اور اچار پر مبنی کھانا ہمارے بستے میں رکھ دیا کرتیں جس کی دل لبھانے والی خوشبو پوری کلاس میں واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کلاس کے کئی بڑی عمر اور سڈول جسم والے لڑکے بزور بازو ہمارے پراٹھوں پر حملہ آور ہونا اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے جبکہ کئی قریبی ساتھی جذباتی لگاؤ کا فائدہ اٹھا کر ہمارے مستقل پارٹنر بن جاتے تھے جنہیں دوپہر کی اس بریک کا شاید ہم سے زیادہ انتظار رہتا۔
علاوہ ازیں ابا جان ہمیں روزانہ الگ الگ آٹھ آنے کی پاکٹ منی بھی دیتے تھے جس سے سکول کے صدر دروازے پر موجود شکر قندی اور مالٹوں کی خریداری پر خرچ کیا جاتا تو اس دوران بھی کئی احباب ہمارے ساتھ شامل ہو کر ہمیں ثواب دارین حاصل کرنے کے وسیع مواقع فراہم کرتے تھے۔ اس ضیافت میں شمولیت کے لئے کئی ہم جماعت طلباء نے ہمارے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ مگر ہم سب کے لئے اصل چیلنج سکول سے واپسی کا سفر تھا کیونکہ سخت بھوک اور تھکان کے باعث ہمارے قدم بوجھل ہو جاتے تھے۔ ہم راستے میں بھوک مٹانے کے کئی منصوبے بنا کر ان پر عمل درآمد کرنے کی لئے ایک مربوط اور منظم حکمت عملی بھی وضع کیا کرتے تھے۔
واپسی کے راستوں پر ہماری تمام تر توجہ بیری کے درختوں، شلجم کے کھیتوں اور کماد کے گنوں پر مرکوز رہتی تھی اور حسب پروگرام ان تینوں میں سے کسی ایک آپشن کو حتمی شکل دے کر منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تمام نگاہیں ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے چھلاوا نما دوست محمد پر جم جاتیں۔ بظاہر تیلی پہلوان اس شیر دل جوان کے پاس کماد کے گنے کاٹنے کے لئے تیز دھار چاقو کے ساتھ ساتھ کالے نمک اور مرچوں کا چورن بھی وافر مقدار میں موجود ہوتا جسے شلجم کھاتے ہوئے استعمال میں لایا جاتا۔ جب دوست محمد کماد کی فصل میں گھس کر اپنے چاقو کے پئے درپئے وار کرکے پلک جھپکتے اٹھ دس گنے کاٹ کر ہم سب ساتھیوں میں برابر تقسیم کرتا تو اس دوران ہم سب کھیت کے چاروں اطراف میں پہرہ دیتے کہ کہیں فصل کے مالکان نہ پہنچ جائیں۔ لہٰذا اس جرم میں ہم سب برابر شریک تھے۔
ہمارے ان جرائم کے واضح ثبوت شلجم اور گنے کے کھیتوں میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ ہمیں اس بات کا خیال بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ جس کماد کے کھیت میں دوست محمد ہر دوسرے دن تباہی مچاتا تھا جب اس کے مالکان اسے کاٹنا شروع کریں گے تو انہیں ہماری واردات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا اور ایک روز ہم سب موقع پر رنگے ہاتھوں دھر لئے جائیں گے۔ مگر دس گیارہ سال کی اس کچی عمر کے معصوم مجرمان کو بھلا اتنی سوجھ بوجھ کہاں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب نے ان کاروائیوں میں تسلسل برقرار رکھا اور بالآخر وہ دن آن پہنچا جو کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ایک روز سکول واپسی پر حسب معمول دوست محمد اپنے تیز دھار چاقو لیکر کماد کی فصل میں داخل ہوا اور اپنے روایتی کھیل کا مظاہرہ کرنے ہے لگا تھا کہ ہمیں اچانک اس کی چیخ سنائی دی جو چپیڑیں لگنے کے بعد بے ساختہ نکلی تھی۔
اب کی بار دوست محمد کے ہاتھ میں گنے نہیں تھے بلکہ ایک ادھیڑ عمر شخص نے اس بے چارے کی پتلی سی گردن کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے دبوچ رکھا تھا۔ جب دوست محمد گرفتار ہو کر کماد کے کھیت سے باہر لایا جارہا تھا تو اسی اثناء میں ہم سب نے دوڑ لگا کر جائے واردات سے بھاگنے کا سوچا ہی تھا کہ دو تین کسان جو اسی کھیت کے مالکان تھے ہمارے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن چکے تھے۔ اس طرح ہم سب معصوم مجرمان رنگے ہاتھوں پکڑے جا چکے تھے جبکہ ہمارے گینگ کے سرغنہ اپنی گردن چھڑانے کے لئے تلملا رہے تھے۔ اگلے چند لمحات میں ان کسانوں نے گزشتہ کئی ماہ پر محیط ہماری مجرمانہ کارروائیوں پر مبنی چارج شیٹ پیش کی۔ بالخصوص کماد کی فصل میں جگہ جگہ دوست محمد کے تیز دھار چاقو کے واضح ثبوت پائے گئے جس پر ان کسانوں نے باقاعدہ گھات لگا کر اس روز ہمارے مرکزی کردار کو عین اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ واردات ڈالنے کے لئے کماد کی فصل میں اترا تھا۔
ان کسانوں میں ایک شخص نے ہم سے تفتیش شروع کی اور دریافت کیا کہ ہمارا تعلق کس گاؤں اور کونسی برادری سے تھا۔ سیف بھائی اور میں نے جب ابا جان کا بتایا تو وہ فوراً اپنی تادیبی کارروائی روکتے ہوئے ہمیں قریب واقع اپنے دارے پر لے گئے۔ انہوں نے ہم سب کو دودھ کا ایک ایک گلاس پیش کیا اور یہ تنبیہ کی کہ سکول سے واپسی پر ہم جب چاہیں ان کے دارے پر آکر دودھ پی سکتے ہیں مگر ہم ان کی شلجم اور کماد کی فصلوں پر حملہ آور نہیں ہونگے۔
ہمیں یقینی طور پر انکی خندہ پیشانی نے متاثر کیا مگر ہمارے اصل ہیرو دوست محمد کی نحیف سی گردن جس زور سے دبوچ لی گئی تھی اس کے بعد اس چھلاوا صفت کمانڈو میں وہ پہلی سی پھرتیاں بھی نہیں رہی تھیں۔ پھر ہمیں اس بات کا ڈر بھی تھا کہ بات بڑھی تو ہمارے گھر تک بھی پہنچے گی جس کے بعد ابا جان سے پھینٹی لگنے کے واضح امکانات موجود تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بطور طفل مکتب ہم معصوم مجرمان اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں تو کیا ہم ان کسانوں کو ڈھونڈ کر ان سے معافی تلافی کر سکتے ہیں۔ مگر پھر سوچا کہ وہ تو جانے کب سے منوں مٹی تلے جا کر سو گئے اور شاید انہوں نے اسی لمحے معاف کر دیا ہوگا جب انہوں نے ہمیں دودھ کا گلاس پیش کیا تھا۔

