Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Lal Andhi

Lal Andhi

لال آندھی

بچپن میں جب کبھی شمال مشرقی افق پر زرد رنگ سے سرخی مائل ہوتی آندھی کے آثار نمایاں ہونے لگتے تو ہمارے گاؤں کے بزرگ یہ کہہ اٹھتے کہ جیسے کہیں کوئی شخص ناحق قتل کر دیا گیا ہے جس کے ردعمل میں آسمان نے بھی غیض و غضب دکھانے کے لئے اپنا رنگ بدل لیا۔ بلاشبہ ہمارے دین حق میں ایک انسان کے ناحق خون کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر گردانا گیا ہے۔ اسی لیے شاید وہ ان پڑھ، سادہ لوح اور بظاہر جاہل گنوار دیہاتی بھی سرخ رنگ کی آندھی کو کسی انسان کے ناحق قتل سے منسوب کرتے کیونکہ ان دنوں انسانی خون اس قدر ارزاں نہیں تھا اور نہ ہی آئے روز لوگوں کے قتل کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔

کبھی کبھار خاندانی دشمنی یا غیرت کے نام پر قتل کی خبر ملتی تو اگلے چند دن پورے علاقے میں لرزہ طاری رہتا اور لوگ اٹھتے بیٹھتے اس سفاکیت کے مختلف پہلوؤں اور محرکات پر بھرپور گفتگو کرتے پائے جاتے۔ آتشیں اسلحہ عام تھا نہ اس کا استعمال۔ عام طور پر لڑائی میں سوٹے ڈنڈے چلتے تو مضروب افراد میں سے کسی کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی۔ کبھی کبھار کلہاڑی اور ٹوکے بھی چل جاتے جس کے نتیجے میں لوگ زخمی ضرور ہو جاتے مگر پھر بھی علاج معالجے کے بعد زخم مندمل ہو جاتے۔ جھگڑے کے بعد گاؤں کے بزرگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور متحارب فریقین میں صلح صفائی کروا دیتے۔ یوں رنجیدہ اور کشیدہ معاملات معافی تلافی پر منتج ہو کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے۔

صرف گزشتہ چند ہفتوں میں ایسے اخلاق سوز اور اندوہناک واقعات رونما ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے انسانیت بھی شرما جائے۔ لگ بھگ دو ہفتے قبل سیالکوٹ میں ایک ماں نے اپنے آشنا سے مل کر اپنے ہی دو بچوں کو اینٹیں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ اس کی چھ سالہ بیٹی ام کلثوم نے اس بد چلن عورت کو حالت گناہ میں دیکھ لیا تھا۔ تقریباً دس روز قبل حافظ آباد میں چار وحشی درندوں نے شوہر کے سامنے اس کی بیوی کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا۔

علاوہ ازیں اسی شہر میں تین لوگوں کو گھات لگا کر قتل کیا گیا اور ان کی لاشیں جلانے کے لئے بدنصیب مقتولین کی گاڑی کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ گزشتہ ہفتے گجرات میں کرکٹ میچ کے دوران اوور نا دینے پر ٹیم کے ایک رکن نے اپنے کپتان کے قتل کے ساتھ ساتھ اس کے بھائی اور ماموں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ تونسہ شریف میں مبینہ طور پر ایک پیر نے دوسری شادی کرنے کے لئے اپنے ہی تین معصوم بچوں کو زہر دے کر لقمہ اجل بنا ڈالا اور باپ کے روپ میں جنگلی درندہ ثابت ہوا۔

خوفناک سانحات کے تسلسل میں چند روز قبل قصور کے گاؤں رتی پنڈی کے دو خوبصورت جوان بھائی صرف تیس روپے کی معمولی رقم پر جھگڑے کے نتیجے میں اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جب دونوں لاہور سے اپنے گھر آ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس لرزہ خیز واقعے کی تفصیلات کے مطابق مبینہ طور پر انہوں نے راستے میں رائیونڈ کے ساتھ گاؤں بھمبھہ سے ایک درجن کیلے خریدے جن کی قیمت 130 روپے تھے۔ ان کے پاس ایک نوٹ سو والا تھا اور باقی پانچ پانچ ہزار والے تھے۔

پھل فروش کے پاس پانچ ہزار کا چینج نہیں تھا جس پر انہوں نے ا سے کہا کہ ان کے پاس سو روپے ہیں لہٰذا ان سے سو روپے لیکر وہ درجن میں سے 30 روپے کے کیلے واپس نکال لے۔ بس اس بات پر تکرار ہوئی اور فروٹ والا گالیاں دینے لگا۔ یوں بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور جھگڑا بڑھ گیا۔ پھل فروش نے اپنے دوستوں کو فون کرکے لڑائی کی اطلاع دی اور انہیں اپنی مدد کے لئے بلا لیا۔ وہ دوست نزدیک ہی کرکٹ کھیل رہے تھے جو سب کے سب اکٹھے ہو کر آ گئے اور بنا تحقیق کئے ان دونوں بھائیوں کو ملکر کرکٹ کے بلوں سے مارنے لگ گئے۔ راشد اور واجد دونوں بھائی شدید زخمی ہوئے، جس پر انہیں قریبی ہسپتال لیجایا گیا۔

دونوں میں سے چھوٹا بھائی واجد زخموں کی تاب نہ لا سکا اور اس نے ہسپتال پہنچتے ہی دم توڑ دیا۔ بڑا بھائی راشد جس کے سر پر بعد میں بلا لگا تھا اور جو کومے کی حالت میں ہسپتال پہنچا تھا چند گھنٹوں بعد وہ بھی جان کی بازی ہار گیا۔ اس سفاکانہ فعل کا سب سے زیادہ قابل مذمت پہلو تیس چالیس تماش بین حضرات کی بے حسی ہے جن کی موجودگی میں تقریباً پندرہ بیس منٹ تک وہ دونوں بھائی نہتے مار کھاتے رہے مگر اس جتھے میں سے کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر حملہ آوروں کا ہاتھ نہیں روکا اور نہ ہی اس معمولی سی بات پر بڑھتے ہوئے جھگڑے کی آگ بجھانے کی کوشش کی۔ ہاں البتہ وہ سب خاموش تماشائی بنے اپنے اپنے موبائل پر ویڈیوز بنانے میں کامیاب ضرور ہو گئے۔ اس سے گھٹیا کردار اور مجرمانہ بے حسی کا عملی ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔

اخلاقی بحران کے باعث ہمارے معاشرے میں تحمل، بردباری اور برداشت کا مادہ یکسر ختم ہو چکا ہے۔ ہر شخص دوسروں سے صرف اپنی بات منوانے اور ان پر حکم صادر فرمانے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اب ہمیں حرف انکار سننے کے عادت نہیں رہی۔ احباب کی محفل میں بھی اب دلیل پر مبنی گفتگو کی بجائے محض تائید کی توقع کی جاتی ہے جبکہ دفاتر میں اختلاف رائے رکھنا یا اس کا اظہار کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر صاحب بہادر اپنے ماتحت رفقائ￿ کار اور ملازمین سے اپنے جائز ناجائز احکامات کی غیر مشروط تعمیل کا آرزو مند ہے۔

انا، اکڑ اور تکبر نے اخلاقیات اور انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں شائستہ گفتگو کی بجائے گالی اور دلیل کی جگہ گولی نے لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی ناحق خون پر شمال مشرقی افق پر کوئی لال آندھی نمودار نہیں ہوتی کیونکہ اب لال رنگ آسمان پر ابھرنے کی بجائے ہمارے کوچہ و بازار میں بہنے والے ناحق انسانی خون میں نمایاں ہو چکا ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz