Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Jannat Ke Haqdar

Jannat Ke Haqdar

جنت کے حقدار

گزشتہ چند روز سے مشہور اداکارہ، ماڈل اور ٹک ٹاکر حمیرا اصغر کی ڈیفنس کراچی میں واقع فلیٹ میں ہونے والی پر اسرار موت نے سوشل میڈیا پر کہرام مچا رکھا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی اداکارہ نے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم مکمل کی اور فن اداکاری میں قسمت آزمائی کی غرض سے کراچی منتقل ہوگئی۔ وہ گزشتہ سات برسوں سے ڈیفنس کراچی کے ایک محفوظ علاقے میں واقع فلیٹ میں کرایہ دار کے طور پر رہائش پذیر تھی جس کے مالک نے گزشتہ کئی ماہ سے کرایہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔

اسی ضمن میں عدالت نے فلیٹ خالی کرانے کا حکم صادر کیا اور اس فیصلے پر عملداری کے لئے بیلف مقرر کیا۔ بیلف نے پولیس کی مدد سے فلیٹ کا تالہ توڑا جس کے اندر حمیرا اصغر کی بوسیدہ لاش پڑی تھی جو کئی مہینے پرانی ہونے کی وجہ سے گلنے سڑنے کے عمل سے گزر رہی تھی۔ اس اندوہ ناک موت کی خبر چند لمحات میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ مرحومہ کی پراسرار اور اندوہناک موت کے بعد اس کے گھر والوں کی لاتعلقی نے اس سانحہ کے کرب میں مزید اضافہ کردیا۔ سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے ردعمل میں بالآخر مرحومہ کے بھائی نوید اصغر نے کراچی پہنچ کر اس کی میت وصول کی جسے لاہور میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سپردِ خاک کردیا گیا۔

جہاں حمیرا اصغر کی موت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے وہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی معلومات بھی سامنے آرہی ہیں جن کی بنیاد پر پولیس نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرکے تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق مبینہ طور پر حمیرا اصغر نے اپنے سوشل میڈیا پر آخری پوسٹ ستمبر 2024 میں لگائی اور اس کے موبائل نمبر سے آخری رابطہ بھی انہی دنوں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کیا گیا جبکہ اس کے فلیٹ کی بجلی بل کی عدم ادائیگی کے باعث اکتوبر 2024 میں منقطع کر دی گئی تھی۔ ان تمام معلومات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کم و بیش نو ماہ قبل ہو چکی تھی۔ مگر کیا اس کی طبعی موت واقع ہوئی یا اس کو مار دیا گیا تھا یا پھر اس نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔

اداکارہ وماڈل حمیرا اصغر جسے شوبز کی دنیا میں خاصی پذیرائی مل چکی تھی اور جس کے سوشل میڈیا پر سات لاکھ سے زائد فالوورز بھی تھے کی اس قدر ناگہانی موت نے جہاں اس کے چاہنے والوں کو غم سے دوچار کر دیا ہے وہاں سوشل میڈیا پر عجیب و غریب باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مردانہ غیرت کے پاسدار، مذہب کے علمبردار اور خود ساختہ دانشور لٹھ بردار بن کر مرحومہ کی کردار کشی کرتے نظر آئے ہیں۔ اس کی بے وقت موت کو اس کی شامت اعمال قرار دیا جا رہا ہے تو کچھ ارسطو اسے اس کی اپنے والدین کی نافرمانیوں کی سزا سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ خود ہی پولیس، قاضی اور جلاد کے تمام کردار نبھانے میں لگے ہیں اور بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے نہ صرف اس کے کردار پر سوالات اٹھا رہے ہیں بلکہ اس کو دوزخ کی آگ میں جلتا بھی دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔

خود کو قرآن و سنت کے مفتی عظام کے طور پر پیش کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے خود ساختہ افلاطون حمیرا اصغر کو نشان عبرت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارے دین حق کی تعلیمات واضح ہیں کہ مرے ہوئے شخص کی خامیوں پر گفتگو سے اجتناب کیا جائے۔ مزید برآں انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے اور احساس سب سے زیادہ مضبوط رشتہ ہے۔ صلہ رحمی کے احکامات واضح ہیں اور قطع تعلق کرنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر میں حمیرا اصغر کو معذور بچوں کے ساتھ پیار کرتے دیکھا گیا ہے جن کے ساتھ وہ وقت گزارا کرتی تھی مگر لٹھ برداروں کے نزدیک ایسے مثبت اور انسان دوست اعمال کی شاید کوئی اہمیت نہیں۔

کراچی کی ایک نمایاں فلاحی تنظیم کے وہ رضا کار بھی یقینی طور پر جنت میں اپنا محل تعمیر کر چکے ہیں جنہوں نے حمیرا اصغر کی بوسیدہ لاش کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اس کی تصاویر بنائیں اور پھر انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ اسی طرح بہت سے وی لاگرز نے اسی تصویر کو اپنے سوشل میڈیا پر خوب سجایا اور اس پر نشان عبرت بننے کے فتوے لگا کر خود کو جنت کے حقدار تصور کئے بیٹھے ہیں۔ حمیرا اصغر کی بڑی بھابھی اپنے انٹرویو میں بتا چکی ہے کہ مرحومہ حمیرا اصغر نے گزشتہ سال اگست میں اپنی والدہ سے مالی ضروریات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ رقم کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے صاف انکار کردیا گیا۔

اسی بے اعتنائی اور لاتعلقی کا اعلان ابتدائی طور پر اس کے والد اور بھائی کی طرف سے بھی کیا گیا جو سوشل میڈیا کے دباؤ میں بدل گیا اور کم از کم اس کم نصیب کی اپنوں میں تدفین ممکن ہو سکی۔ اس کی لاچارگی، بے بسی اور تنہائی کا عالم کیا ہوگا جو اپنی فیملی، شوبز انڈسٹری میں موجود رفقاء کار، ذاتی زندگی میں دوست احباب اور لاکھوں مداحوں کے باوجود لگ بھگ نو ماہ اپنے فلیٹ میں مردہ پڑی رہی مگر کسی ایک شخص نے اس کی پر اسرار خاموشی کا نوٹس تک نہیں لیا کہ جیسے حمیرا اصغر ان کی زندگی میں کبھی تھی ہی نہیں۔ بے حسی کی آخری حدوں کو چھونے والے دودھ سے دھلے یہ تمام کردار بھی جنت کے حقدار بنے بیٹھے ہیں اور ان سب کے نزدیک جہنم کی مستحق صرف حمیرا اصغر ہے۔ بقول شاعر۔

ہر ایک شخص کو دعویٰ ہے پارسائی کا
سبھی فرشتے ہیں یارو کوئی بشر بھی ہے

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz