Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Civil Service Ki Laila

Civil Service Ki Laila

سول سروس کی لیلی

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں تعینات ایس پی انڈسٹریل ایریا عدیل اکبر نے بھی مبینہ طور پر پولیس سروس آف پاکستان میں اپنے چار سینیئرز اشعر حمید، شہزاد وحید، جہانزیب خان اور ابرار حسین نیکو کارہ کیطرح اپنے ہی سرکاری اسلحہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا اور یوں اس لرزہ خیز واقعے نے پوری سول سروس برادری کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔

گزشتہ چند سال میں سول سروسز کے افسران میں خود کشی جیسے انتہائی اقدام اٹھانے کے رجحان میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے جس میں واضح اکثریت پولیس افسران کی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے بیج میٹ سہیل ٹیپو بطور ڈی سی گوجرانولہ، پی ایم ایس کے عمران رضا عباسی، ملٹری اینڈ لینڈ کینٹونمنٹ کے بلال پاشا اور آڈٹ اینڈ اکاونٹس سروس سے تعلق رکھنے والی نبیحہ چودھری سمیت ان تمام شاندار افسران اور خوبصورت انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے زندگی کی سبھی لکیریں مٹا ڈالیں۔ یہاں پر یہ امر سمجھنا ضروری ہے کہ اس طرح کے اندوہناک واقعات محض حادثہ ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی ڈھانچے کی پوشیدہ کج رویوں اور بوسیدہ انتظامی نظام کے بیگاڑ کی ایک دردناک تصویر ہے۔

عدیل اکبر بھی دوسرے افسران کی طرح ایک قابل، ذہین اور محنتی نوجوان افسر تھا جس نے اعلیٰ تعلیم کے بعد سی ایس ایس جیسے مشکل ترین امتحان میں دو مرتبہ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، گولڈ میڈل کا مستحق ٹھہرا اور بلوچستان کے چند اعصاب شکن اضلاع میں لگ بھگ چھ سال تک قابلِ ستائش خدمات انجام دیں۔ حال ہی میں وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جیسے اہم شہر میں تعینات ہوا اور چند ہفتوں میں ہی اس نے اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے باعث پولیس فورس میں مقبولیت حاصل کر لی۔ مگر پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ اس سے ساری خوشیاں روٹھ گئیں اور وہ راہ عدم کا مسافر بننے پر مجبور ہوا۔ عمومی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلسل ڈیوٹی، بیماری کی حالت میں چھٹی نہ ملنے اور ذہنی دباؤ نے اسے بے بس کر دیا ہو اور اس کے بلند حوصلے کو شکست دے دی ہو۔ مگر یہ اس بڑے سانحہ کی انتہائی سطحی تشریح ہوگی۔

دراصل غور طلب وہ عوامل ہیں جو ایک پڑھے لکھے اور فرض شناس افسر کو خود کشی جیسے انتہائی سنگین نوعیت کے اقدام کیطرف دھکیل دیتے ہیں۔ اس سوال کے ممکنہ کئی جواب ہیں۔ ہمیں مشہور زمانہ برطانوی شاعر جان کیٹس کی شہرہ آفاق نظم لا بیلا ڈیم سینز مرسی کا مرکزی خیال ذہن نشین کرنا پڑے گا جس میں شاعر مجنوں بن کر اپنی لیلی جو کہ ایک بے رحم اور سنگدل حسینہ ہے سے گلہ کرتا ہے اور جس نے شاعر کو اپنے جادوئی حسن اور مدھر سروں کا گرویدہ بنا کر جانے کتنے سہانے خواب دکھائے مگر اس کی وفا کے تمام دعوے اور محبت کے سبھی وعدے جھوٹے نکلے۔ وہ بے رحم حسیں لیلی اپنے مجنوں (شاعر) کو تنہا چھوڑ کر اچانک روپوش ہوگئی اور وہ اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا اس کی بے وفائی پر لب کشائی کرتا نظر آتا ہے۔

سول سروس کی لیلی بھی اک بے وفا سنگدل حسینہ ہے جس کے دام الفت میں گرفتار ہو کر اسے پانے کی خو میں پاکستان کے باصلاحیت اور انتہائی قابل اذہان اپنا تن من دھن وار دیتے ہیں۔ وہ اپنی لیلی کو پانے کی غرض سے سی ایس ایس امتحان پاس کرنے کی جستجو میں دن رات ایک کر دیتے ہیں اور اس دوران وہ جانے کتنے جذباتی رشتوں اور نفسانی خواہشات کا خون کرتے ہیں، خود پر جبر کرتے ہیں اور پورے انہماک کے ساتھ سول سروس کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا لیتے ہیں۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد وہ سول سروس اکیڈمی میں پہنچ کر اپنی لیلی کے ساتھ عمر بھر کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔

تربیت کے روزو شب کو اس نئی نویلی شادی خانہ آبادی کا ہنی مون پیریڈ کہا جا سکتا ہے جہاں انہیں اتنا ہی پروٹوکول ملتا ہے جتنا نئے نویلے جوڑے کو سسرال میں دیا جاتا ہے۔ چھ سے آٹھ ماہ پر محیط تربیت کے دوران انہیں بار بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان کی آخری امید ہیں اور وہی اپنی خدادا صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تمام مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے لئے انہیں ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے سول سروس کی لیلی کے ساتھ یہ ہنی مون پیریڈ بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ تربیت کے خاتمے کے بعد سہانے سپنوں کا یہ خواب نگر عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتا اور نہ ہی تربیت کے دوران بتائے گئے تمام سنہری اصول کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ پہلی پوسٹنگ کے فوری بعد نوجوان افسران کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ انقلابی اقدامات اور کتابی باتوں سے اجتناب کریں۔ وہ بات بات پر میرٹ اور عدل و انصاف کا راگ الاپنے کی بجائے تمام سٹیک ہولڈرز اور پریشر گروپس کو دانشمندی سے ہینڈل کرے کا فن سیکھیں۔

میرٹ کی رٹ لگانے کی بجائے محض یس سر اور حسنِ کارکردگی کی بجائے باس کی خوشامد اور چاپلوسی کو شعار بنانے والے رفعتیں پاتے ہیں اور اشرافیہ کی آنکھوں کا تارا بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف اپنی کارکردگی، ذہانت اور صلاحیت کے بل بوتے پر فرض شناسی کی خوش فہمی میں مبتلا کوئی سر پھرا اگر قانون، اصول اور انصاف کی عمل داری قائم کرنے کی ٹھان لے اور کسی سینئر کی چاپلوسی نہ کر پائے یا ناجائز احکامات پر حرف انکار زبان پر لانے کی جسارت کر بیٹھے تو پھر اسے ذلیل و رسواء کرکے نشان عبرت بنانے میں دیر نہیں لگتی۔

سول سروس کی لیلی کے یہ نرالے اطوار و انداز سچی محبت کا دم بھرنے والے مجنوں پر کوہ گراں بن کر ٹوٹتے ہیں اور یوں وہ ایک عجیب ذہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ سے دوچار ہو کر اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ بہت سارے مجنوں اس بے وفائی کا روگ سینے سے لگائے جینے کے قرینے سیکھ لیتے ہیں مگر کچھ انتہائی ذہین، حساس طبیعت اور حلیم مزاج مجنوں اپنوں کی بے اعتنائی اور محبوبہ کی بے وفائی برداشت نہیں کر پاتے تو وہ اسی ہیجانی کیفیت میں اپنی بے وفا لیلی سے انتقام لینے کی ٹھان لیتے ہیں جس طرح محبت میں ناکامی پر دل برداشتہ ہو کر کئی خوبرو نوجوان اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz