Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Akhuwat Ki Kahani

Akhuwat Ki Kahani

اخوت کہانی

گزشتہ جمعہ کی شام برمنگھم کے ایڈبیسٹن کرکٹ سٹیڈیم کے فسٹ فلور پر واقع ایک کشادہ ہال میں اخوت یو کے نے پاکستان میں حالیہ قیامت خیز سیلاب کے متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے ایک باوقار فنڈ ریزنگ ڈنر کا انعقاد کیا۔ اس میں شرکت کے لئے لگ بھگ دو ہفتے قبل اخوت یو کے کے صدر اور میرے بیج میٹ عارف انیس نے مجھے بڑی محبت سے مدعو کیا اور بعد میں دو تین مرتبہ مزید تاکید کے لئے یاددہانی بھی کروائی۔

رہی سہی کسر خود ڈاکٹر محمد امجد ثاقب صاحب بانی و سربراہ اخوت کے محبت بھرے دعوت نامے نے نکال دی۔ وہ اسی تقریب میں شرکت کے لئے عارف انیس کے ہمراہ جمعہ کے روز لندن سے ایڈبیسٹن کرکٹ سٹیڈیم برمنگھم کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے اس میں شرکت کے لئے حکم صادر فرمایا جس کی تعمیل میرے لئے لازم ٹھہری۔ میں نے لیسٹر سے روانگی سے قبل برمنگھم میں موجود اپنے قریبی دوست اور برطانوی پولیس کے چیف انسپکٹر راجہ محمد حنیف کے ساتھ اس تقریب میں اکھٹے شرکت کا پروگرام ترتیب دیا کیونکہ ان کا گھر ایڈبیسٹن کرکٹ سٹیڈیم سے زیادہ دور نہیں۔ وہاں پہنچ کر برادرم بیرسٹر شکیل خان سے بھی ملاقات ہوئی اور یوں ہم تینوں پروگرام کے لئے روانہ ہوئے اور اگلے دس پندرہ منٹ میں ہم تقریب کے اندر موجود تھے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب اور عارف انیس کے علاوہ اخوت کے دو بانی ممبران محترم سلیم رانجھا اور ڈاکٹر اظہار ہاشمی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ علاوہ ازیں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے برمنگھم میں مقیم برادرم محمود رجوکہ بھی موجود تھے۔ برمنگھم قونصلیٹ میں ہیڈ آف چانسری محترمہ بختاور میر سے مختصر ملاقات کا موقع ملا۔ کچھ دیر بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ تلاوتِ قرآن کریم اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد میزبان محفل ہمہ جہت کامران شیخ نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور شرکاء کو اس فنڈ ریزنگ ڈنر کے سیاق و سباق سے آگاہ کیا۔

ڈاکٹر اظہار ہاشمی اور سلیم رانجھا صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں اخوت کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی جبکہ اخوت یو کے کے صدر برادر عارف انیس نے اپنے روایتی موٹیو یشنل مگر پر مغز جملوں سے سامعین محفل کو خوب گرمایا جس کے بعد ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کو صدارتی خطاب کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کو رب العالمین نے قوت اظہار کی بے پایاں دولت سے مالا مال کر رکھا ہے اور ان کا حرف حرف پڑھنے اور سننے والوں کے قلب و روح میں اتر جاتاہے۔ وہ دل سے لکھتے ہیں، صدق دل سے بولتے ہیں اور جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔ اس شام بھی وہی ہوا۔

چالیس سے پینتالیس منٹ وہ اپنے الفاظ کی جادوگری دکھاتے رہے اور سامعین کے سامنے اخوت کے قیام سے لیکر اس کے مختلف پہلوؤں اور کامیابیوں کو کھول کر رکھتے رہے۔ ہال میں موجود تین ساڑھے تین سو افراد ہمہ تن گوش انہیں سنتے رہے اور چہار سو مکمل سناٹا چھایا رہا کیونکہ اخوت کی کہانی محض داستان گوئی نہیں اور نہ ہی کسی فسانے کا قصہ ہے۔ اخوت نے گزشتہ پچیس سال میں نہ صرف وطن عزیز پاکستان کے سب سے بڑے مائیکرو فنانس کے ادارے کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے بلکہ اب اخوت کا قرض حسنہ حجم کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے بڑا پروگرام بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخوت کہانی دل سے نکل کر دلوں میں اتر جاتی ہے۔

اخوت کہانی کی کئی جہتیں ہیں اور اسے مختلف زاویوں سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ اپنی ترقی اور ترویج کے رنگ میں یہ اک افسانوی کہانی کا روپ دھار لیتی ہے۔ کسے خبر تھی کہ سنہ 2001 میں محض دس ہزار روپے یا سو ڈالر کی معمولی رقم سے شروع ہونے والا یہ سفر پچیس سال میں چار سو ارب روپے یا 1.6 بلین ڈالر کے حجم کو پہنچ جائے گا جس نے لگ بھگ سات ملین گھرانوں میں تین کروڑ سے زائد افراد کی زندگیوں کو مایوسی و بے بسی کے اندھیروں سے نکال کر امید وآرزو کی اک نئی دنیا سے روشناس کرایا جس میں کاسہ گدائی کی بجائے خودی، خوداری اور معاشی خود انحصاری کی اک باوقار زندگی کے پھول کھلتے ہیں۔

مادہ پرستی اور معاشی سامراجی کے استحصالی نظام کی موجودگی میں بلاسود قرضوں کی فراہمی یقینی بنانے اور ایک مربوط تنظیمی ڈھانچے کو تشکیل دیکر ملک بھر میں چار سو سے زائد برانچوں کے قیام کے بعد مستحق افراد کو جانچ پڑتال کے عمل سے گزار کر مساجد میں بلاکر ان میں منظور شدہ قرضوں کی رقوم کے چیک تقسیم کرنے تک کا تمام عمل کسی افسانے کا موضوع محسوس ہوتا ہے۔ مگر اخوت کا تربیت یافتہ عملہ یہ کام روزانہ انجام دیتا ہے۔ اسی طرح بلاسود قرضوں کے ساتھ لاہور قصور روڈ پر اخوت یونیورسٹی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو چکا جس میں پڑھنے والوں سے نہ صرف کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی بلکہ انہیں کتابیں اور یونیفارم کی مفت فراہمی کے ساتھ رہائش اور کھانے کی سہولیات بھی بلا معاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔

چکوال گرلز کالج میں یہ تمام سہولیات پاکستان کی بیٹیوں کے لئے یقینی بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اخوت نے دو ہزار خواجہ سراؤں کی سماجی حیثیت اور معاشی تحفظ کو یقینی بنانے کا بیڑہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ علاوہ ازیں اخوت کا ہیلتھ کیئر پروگرام تقریباً چھ لاکھ مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کر چکا ہے۔ اخوت کلاتھ بنک نے لگ بھگ دو ملین گھرانوں میں مفت کپڑوں کی ترسیل یقینی بنائی ہے۔ یہ تمام سہولیات اور بے لوث خدمات اخوت کہانی کو ایک جادوئی روپ دے دیتیں ہیں۔

اخوت کہانی در اصل وطن عزیز پاکستان کا خوبصورت چہرہ بھی ہے جو ایثار، اخلاص، احساس اور احسان کے چار بنیادی اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اخوت درحقیقت مواخات مدینہ کی درخشاں روایت کا تسلسل ہے جس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ اخوت کہانی کا احاطہ کرنا کالم کی ان گنی چنی سطور میں ممکن نہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz