وقت معاف نہیں کرتا۔۔۔
جس طرح برطانیہ کے موسم میں آسماں کا رنگ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اسی طرح پاکستانی قلزم سیاست میں بھی آنکھ جھپکتے ہی بھنور بن جاتے میں۔ تیز دھوپ کی جگہ یکدم مطلع ابر آلود ہو جانا، بارشیں شروع ہو جانا برطانیہ کے موسم کی خصوصیت ہے اسی لیے محاورۃً کہا جاتا ہے کہ آپ تو انگریزی موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ یہی حال پاکستانی سیاست کا ہے جہاں حکمرانوں کا سنگھاسن ڈولنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ صرف ایک چیز مستقل ہے اور وہ ہے پاکستان میں تاریخی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا رول۔ تحریک انصاف کی حکومت جو بڑے کروفر کے ساتھ صرف بائیس ماہ پہلے آئی تھی، حالیہ ہفتوں میں کمزور پڑتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان جو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے تھے، وہ اور ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج اب بھی اپوزیشن کو ہر معاملے میں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، نیب بھی خصوصی طور پر اپوزیشن کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے، یہ سلسلہ کافی حد تک اب بھی جاری ہے لیکن جیسا کہ سیاست کا بنیادی اصول ہے کہ جب اختلاف رائے اور مخالفانہ نکتہ نظر کو مسلسل نظر انداز کیا جائے، میڈیا کو بھی پابند کرنے کی کوششیں کی جائیں تب بھی یک جماعتی نظام نہیں ابھرتا۔ بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں جہاں اختلاف رائے اور احتجاج لوگوں کی گھٹی میں بسا ہوا ہے۔
خان صاحب سے بنیادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے تو سب اچھا ہے حالانکہ اپنے پیشرو حکمرانوں کے حشر سے سبق سیکھتے ہوئے انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب حالات دگرگوں ہوں تو مقتدر اداروں کے وعدے بھی ایشیائی معشوق کی طرح ثابت ہوتے ہیں۔ اگر وزیراعظم بنظر غائر 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیتے تو ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ انتخابی نتائج کے سافٹ وئیر میں ہی پی ٹی آئی کی کمزوریاں اور سیفٹی والومضمر ہے۔ اگر سیاسی مسافروں اور آزاد ارکان کو ساتھ نہ ملایا جاتا اور انتخابات سے پہلے بھی اپوزیشن کے بقول خلائی مخلوق، خان صاحب کی حمایت نہ کرتی تو پی ٹی آئی کی حکومت نہ بن پاتی لیکن تمام پاپڑ بیلنے کے باوجود وفاق اور پنجاب میں موجودہ حکمران اتحاد چند ووٹوں سے ہی قائم ہے۔ بی این پی (مینگل) کے انخلا کے بعد صورتحال مزید نازک ہو گئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چودھری برادران بجٹ کے حق میں ووٹ دینے کے باوجود خان صاحب سے ناراض ناراض ہیں۔ اگر یہ اتحادی ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت گر جائے گی۔ جیسا کہ چودھری برادران کے معتمد ساتھی طارق بشیر چیمہ نے بلاواسطہ طور پر واضح کر دیا ہے کہ وہ باامر مجبوری خان صاحب کے ساتھ ہیں، اگر مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہوں تو حکومت سے الگ ہونا کوئی جرم نہیں، ویسے بھی حکومت چھوڑتے ہوئے وزارت لینی نہیں دینی پڑتی ہے جو بڑا آسان کام ہے۔
یہیں بات ختم نہیں ہوتی، خود وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان کی کثیر تعداد روٹھ کر الگ تھلگ بیٹھی ہے۔ ان میں سے کچھ ارکان تو دیدہ دلیری سے میڈیا اور اسمبلی میں اپنے اختلافات کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خان صاحب نے جس انداز سے اپنے دست راست جہانگیر ترین کو فارغ کیا ہے اس سے بھی پارٹی میں یہ پیغام گیا کہ اگر جہانگیر ترین جیسے وفادار اور قابل اعتماد ساتھی کا یہ حشر ہوا ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ جو کام اصولی طور پر خان صاحب کو پہلے کرنا چاہیے تھا، اب جہانگیر ترین کی عدم موجودگی میں انھیں خود کرنا پڑ رہا ہے۔ انھیں یکدم قومی اسمبلی میں اپنی حاضری بہتر بنانے کا بھی خیال آ گیا۔ حالیہ چند دنوں میں بجٹ کے اجلاس کے علاوہ وہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کر چکے ہیں۔ بائیس ماہ میں پہلی مرتبہ انھوں نے حکمران جماعت اور اتحادیوں کو اپنے گھر بلا کر مٹن قورمے اور پلاؤ سے ان کی خاطر کی اور بعدازاں ناراض ارکان اسمبلی سے میٹنگ بھی کی۔ ان ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ انھیں شرف ملاقات تو کیا پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی بولنے کا موقع نہیں ملتا تھا، مزید برآں ان کے حلقوں میں ووٹروں کے تمام کام رکے پڑے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے بڑھک ماری کہ میرے سوا کوئی آپشن نہیں اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اگلے ہی روز قومی اسمبلی میں دوبارہ آ کر یہ وضاحت کر دی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ میری کرسی مضبوط ہے۔ مائنس ون فارمولے کے حوالے سے انھوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں مائنس ہو بھی جاؤں تمھاری جان تب بھی نہیں چھوٹے گی۔
مائنس ون کی بات کوئی نئی نہیں ہے، لیڈر آف اپوزیشن شہبازشریف نے ماضی میں نجی طور پر اس کا ذکر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو قابل قبول وزیراعظم کہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ مائنس ون فارمولہ اب شاید نہ چل سکے کیونکہ اگر خان صا حب اِدھر اْدھر ہوئے تو پی ٹی آئی کے منڈیر پر بیٹھے باقی پنچھی بھی ہوا کا رخ دیکھ کر پرواز کرینگے اور جو فارمولہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے کامیاب ہو گیا تھا شاید مزید نہ پنپ سکے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے روایتی کاسہ لیسوں کی طرح فرمایا ہے کہ عمران خان مائنس ہوئے تو جمہوریت بھی مائنس ہو جائے گی۔ اس سے پہلے بھی خوشامدیوں کا ٹولہ اپنا الو سیدھا رکھنے کے لیے حکمرانوں کو ناگریز ہونے کا یقین دلاتا تھا۔ یہ بھی محض اتفاق نہیں ہے کہ اپوزیشن نیب زدہ ہونے کے باوجود یکدم خاصی فعال ہو گئی ہے۔ اگر خان صاحب اور ان کے حواری اس زعم میں مبتلا تھے کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست کو بزعم خود دفن کر کے ان کی جماعت اور وہ تاحیات حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں گے درست ثابت نہیں ہوا۔
قومی اسمبلی میں آنا اچھی بات ہے لیکن وہاں محض تقریر کر کے چلے جانا کا فی نہیں ہے بلکہ انھیں ایوان کے اندر ارکان قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کرنا چاہئیں نیز اپنے چیمبر میں بھی بیٹھنا چاہیے۔ خان صا حب کو اپنی ٹیم میں بنیادی تبدیلیاں لا کر غیرمنتخب مشیروں اور معاونین خصوصی سے حتی المقدور چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جس کی بنا پر ان کی اپنی جماعت میں بھی سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ مزید برآں وہ تسلیم کریں نہ کریں گورننس کا حال اتنا پتلا ہو گیا ہے کہ ملک کی گاڑی آگے نہیں چل رہی اور وزیراعظم ا پنی اسی ڈگر پر قائم رہے تو وقت انھیں زیادہ عرصے تک معاف نہیں کرے گا۔ جوں توں کرکے بجٹ تو منظور ہو گیا اور وقتی طور پر بحران ٹل گیا ہے لیکن خان صاحب کے لئے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔